سورة البقرة - آیت 198

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اور دیکھو) اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں اگر (اعمال حج کے ساتھ) تم اپنے پروردگار کے فض (رح) کی بھی تلاش میں رہو (یعنی کاروبار تجارت کا بھی مشغلہ رکھو) پس جب عرفات (نامی مقام) سے انبوہ در انبوہ لوٹو تو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کا ذکر کرو۔ اور اسی طرح ذکر کرو جس طرح ذکر کرنے کا طریقہ تمہیں بتلا دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے تم بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے، یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 2- 9 ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف، حج کا سب سے اہم رکن ہے، جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے۔ [ الْحَجُّ عَرَفَةُ ] (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے، بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشا کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی۔ مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ حرم کے اندر ہے۔ یہاں ذکر الٰہی کی تاکید ہے۔ یہاں رات گزارنی ہے، فجر کی نماز غَلَسٌ ( اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے، طلوع آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔