سورة ھود - آیت 69

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے، انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو، ابراہیم نے کہا تم پر بھی سلامتی، پھر ابراہیم فورا ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا (اور ان کے سامنے رکھ دیا کہ یہ میرے مہمان ہیں)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ دراصل حضرت لوط (عليہ السلام) اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط (عليہ السلام) کی بستی بحیرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط (عليہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط (عليہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔ 2- یعنی سَلَّمْنَا عَلَيْكَ سَلامًا ”ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں“۔ 3- جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سلام مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبارت ہوگی: أَمْرُكُمْ سَلامٌ یا عَلَيْكُمْ سَلامٌ۔ 4- حضرت ابرا ہیم (عليہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معذور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔