سورة ھود - آیت 17

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں (یعنی وجدان و عقل کا فیصلہ) اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو ( یعنی اللہ کی وحی) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سر تا پارحمت آچکی ہو ( اور تصدیق کر رہی ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں) یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور (ملک کے مختلف) گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو (دوزخ کی) آگ ہی وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تو اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑیو ( یعنی دعوت قرآن کی کامیابی کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کیجیو) وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے۔ لیکن (ایسا ہی ہوتا ہے) کہ اکثر آدمی (سچائی پر) ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ”اپنے رب کی طرف سے دلیل“ سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالٰی نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور وہ ہے اللہ واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی(ﷺ) کا فرمان ہے کہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“(صحيح بخاری- كتاب الجنائز ومسلم- كتاب القدر) یتلوہ کے معنی ہیں اس کے پیچھے یعنی اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو گواہ سے مراد قرآن ، یا محمد (ﷺ) ہیں ، جو اس فطرت صحیحہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی کتاب تورات بھی جو پیشوا بھی ہے اور رحمت کا سبب بھی یعنی کتاب موسیٰ (عليہ السلام) بھی قرآن پر ایمان لانے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے دلیل پر قائم ہے، اس پر ایک گواہ (قرآن، یا پیغمبر اسلام ﷺ) بھی ہے، اسی طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات، میں بھی اس کے لئے پیشوائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اور وہ ایمان لے آتا ہے کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک مومن ہے اور دوسرا کافر۔ ایک ہر طرح کے دلائل سے لیس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔ 2- یعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے وہ قرآن کریم اور نبی پر ایمان لائیں گے۔ 3- تمام فرقوں سے مراد روئے زمین پر پائے جانے والے مذاہب ہیں، یہودی، عیسائی، زرتشی، بدھ مت، مجوسی اور مشرکین و کفار وغیرہ، جو بھی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے یہ وہی مضمون ہے جسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کے جس یہودی، یا عیسائی نے بھی میری نبوت کی بابت سنا اور پھر مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ جہنم میں جائے گا“ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا (ﷺ )إلى جميع الناس) یہ مضمون اس سے پہلے سورہ بقرہ آیت 62 اور سورہ نساء آیت 150-152 میں بھی گزر چکا ہے۔ 4- یہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ﴿وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (سورۃ یوسف:103) ”تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“، ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ( سورة سبأ:20) ”ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، مومنوں کے ایک گروہ کے سوا، سب اس کے پیروکار بن گئے“۔