سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان اعرابیوں میں جو تمہارے آس پاس بستے ہیں کچھ منافق ہیں اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی جو نفاق میں (رہتے رہتے) مشاق ہوگئے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے تو بہت ہی بڑا عذاب ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مَرَدَ اور تَمَرَّدَ کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَمْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے۔ ﴿مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ﴾کے معنی ہوں گے تَجَرَّدُوا عَلیَ النِّفَاقِ، گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار اور استمرار ہے۔ 2- کتنے واضح الفاظ میں نبی (ﷺ) سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ 3- اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔