سورة التوبہ - آیت 49

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان (منافقوں) میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : مجھے اجازت دیجیے (کہ گھر میں بیٹھا رہوں) اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو سن رکھو یہ لوگ فتنہ ہی میں گر پڑے (کہ جھوٹے بہانے بنا کر خدا کی راہ سے منہ موڑا، اور فتنہ یہی فتنہ ہے، نہ کہ وہ وہمی فتنہ جو ان کے نفاق نے گھڑ لیا ہے) اور بلا شبہ دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”مجھے فتنے میں نہ ڈالیے“ کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے فتنہ، گناہ کے معنی میں ہوگا۔ یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے، دوسرا مطلب فتنے کا، ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لیجا کر ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ کہا جاتا ہے کہ جد بن قیس نے عرض کیا مجھے ساتھ نہ لے جائیں، روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کر سکوں گا۔ اس پر نبی (ﷺ) نے رخ پھیر لیا اور اجازت دے دی۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ”فتنے میں تو وہ گر چکے ہیں“ یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہی ہیں۔ اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیر لینے والی ہے، جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لئے نہیں ہوگا۔