سورة الانفال - آیت 41

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت میں ملے اس کا پانچواح حصہ اللہ کے لیے، رسول اللہ کے لیے (رسول کے) قرابت داروں کے لیے، یتیموں کے لیے، مسکینوں کے لیے اور مسافروں کے لیے نکالنا چاہے (اور بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیئے جاسکتے ہیں) اگر تم اللہ پر اور اس (غیبی مدد) پر یقین رکھتے ہو جو ہم نے فیصلہ کردینے والے دن اپنے بندے پر نازل کی تھی جبکہ دو لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے تو چاہیے کہ اس تقسیم پر کاربند رہو۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے، کافروں پر لڑائی میں فتح وغلبہ حاصل ہونے کے بعد، حاصل ہو ۔ پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کرڈالتی ۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کر دیا گیا اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعے یا جزیہ وخراج سے وصول ہو، اسے فَيْءٌ کہا جاتا ہے ۔ کبھی غنیمت کو فَيْءٌ سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔ ”مِنْ شَيْءٍ“ سے مراد جو کچھ بھی ہو یعنی تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی، سب کو جمع کرکے اس کی تقسیم حسب ضابطہ کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ 2- اللہ کا لفظ تو بطور تبرک، نیز اس لئے بھی ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے۔ مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں بھی پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ (ﷺ) کا ( اور آپ ﷺ کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ (ﷺ) بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ (ﷺ) نے فرمایا بھی ہے۔ ”وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ“ (سنن النسائي- وصححه الألباني في صحيح النسائي: 3858 ۔ ومسند أحمد جلد: 5، ص،319) یعنی میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ رسول اللہ (ﷺ) کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا۔ 3- اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی ( معجزات وغیرہ ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔ 4- بدر کی جنگ 2 ہجری 17رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح وغلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر وشرک باطل ہے۔ 5- یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں۔