سورة الاعراف - آیت 101

تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) یہ ہیں (دنیا کی پرانی) آبادیاں جن کے حالات ہم تمہیں سناتے ہیں، ان سب میں ان کے پیغمبر (سچائی کی) روشن دلیلوں کے ساتھ آئے مگر ان کے بسنے والے ایسے نہ تھے کہ جو بات پہلے جھٹلا چکے تھے اسے (سچائی کی نشانیاں دیکھ کر) مان لیں، سو دیکھو اس طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو (ہٹ دھرمی سے) انکار کرتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل وبراہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کر دی، ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا ۔ کیونکہ: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا [الإسراء: 15] ”جب تک ہم رسول نہیں بھیج دیتے ۔ عذاب نازل نہیں کرتے“۔ 2- اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب ان سے عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے، اس لیے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے ۔ کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا ۔ جس کو حدیث میں [ فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلقَ لَهُ ] (صحيح بخاری، تفسير سورة الليل) سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کر چکے تھے ۔ گویا ابتداءً جس چیز کی وہ تکذیب کرچکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کر لی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ﴿وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [الأنعام: 109-110]. ”اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)“۔