سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان اعرابیوں میں جو تمہارے آس پاس بستے ہیں کچھ منافق ہیں اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی جو نفاق میں (رہتے رہتے) مشاق ہوگئے ہیں۔ (اے پیغمبر) تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر اس عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے تو بہت ہی بڑا عذاب ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

منافقت کے خوگر شہری اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ عرب کے قبائل میں جو مدینہ کے اطراف میں رہتے ہیں بعض منافق ہیں اور خود مدینہ کے رہنےوالے بعض مسلمان بھی درحقیقت منافق ہیں کہ اپنے نفاق کو لیے چل رہے ہیں اور منافقت سے باز نہیں آتے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے شیطان مریدو مارد ۔ اور «تَمَرَّدَ فُلاَنٌ عَلَی اللّٰہِ» یعنی فلاں نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی ۔ اللہ کا قول «لَا تَعۡلَمُہُمۡ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ» اللہ کے اس قول «وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُم بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ» ( 47-محمد : 30 ) کے منافی و متضاد نہیں ہے یعنی تم انہیں نہیں پہچانتے ، ہم انہیں خوب جانتے ہیں اور یہ قول ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم تمھیں بتلا دیں گے کہ وہ کیسے ہیں تو پھر تم انہیں جان جاؤ گے ان کی صورت دیکھتے ہی اور انہیں پہچان لو گے ان کی کج مج باتوں ہی سے ۔ یہ دونوں آیتیں آپس میں ضد نہیں ، اس لئے کہ یہ اس قسم کی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ ان کی صفات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ وہ پہچان جا سکیں یہ بات نہیں کہ تم تمام ہی منافقین کو علی الیقین جانتے ہو ۔ آپ اہل مدینہ میں سے صرف ان بعض اہل نفاق کو جانتے تھے جو رات دن ملتے جلتے رہتے تھے اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دیکھتے تھےصحیح طور پر اس کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے ، جو امام احمد رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ مکہ میں ہمیں کوئی اجر نہیں ملا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جبیر!رضی اللہ عنہ تم لوگوں کا اجر تم کو ضرور دیاجائے گا خوان تم لوگ لومڑی کے بھٹ ہی میں کیوں نہ ہو ۔ پھر آپ نے میری طرف سر جھکا کر رازدانہ طور پر فرمایا کہ میرے اصحاب میں بعض منافق بھی ہیں ۔ (مسند احمد:82/4-83:ضعیف) مطلب یہ ہے کہ بعض منافقین ایسی کج مج باتیں بولتے رہتے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی چنانچہ یہ بھی ایک اسی قسم کا کلام تھا جس کو جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ نے سنا تھا ۔ «وَہَمٰوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا» ( 9-التوبہ : 74 ) کی تفسیر میں یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے حذیفہ کو یہ بات معلوم کرا دی تھی کہ چودہ یا پندری شخص اصحاب ایسے ہیں جو دع حقیقت منافق ہیں اور یہ تخصیص اس بات کی متقاضی نہیں آپ ان تمام کے نام جانتے تھے اور ان کے تشخّص سے واقف تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حافض ابن عساکر نے ترجمہ ابو عمر البیروتی میں بالاسناد روایت کرتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی جس کا نام حرملہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ ایمان تو یہاں ہے اور اشارہ کیا اپنی زبان کی طرف اور نفاق یہاں ہوتا ہے اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے اپنے قلب کی طرف اور اللہ کا نام بھی لیا تو کچھ یونہی سا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ اے اللہ !تو اس کی زبان کو ذاکر بنا دے اورقلب کو شاکر بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور مجھ سے محبت کرنے والوں کو محبت عطا فرما اور اس کے سارے امور خیر کی طرف پھیر دے ۔ اب اس کی ساری منافقت دور ہو گئی اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے اکثر ساتھی منافقین ہیں اور میں ان سب کا سردار تھا کیا ان سب کو میں آپ کے پاس پکڑ کر نہ لاؤں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آپ ہی میرے پاس آئے گا تو ہم اس کے لئے اللہ سے مغفرت چاہیں گے اور جو نفاق پر اصرار کئے رہے گا اللہ اس کو دیکھ لے گا ۔ تم کسی کا راز فاش نہ کرو ایسی ہی روایت ابو احمد الحاکم نے بھی کی ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق لابن منظور:76/29:ضعیف) اس آیت کے بارے میں قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا جو بے تکلف لوگوں کے بارے میں جانتا ہے کہ دوزخی ہیں یا جنتی وہ تو ایسی بات کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں جس کا دعویٰ تو انبیاء نے بھی نہیں کیا ۔ اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام نے کہا تھا کہ «وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ» ( 26-الشعراء : 112 ) یعنی میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام نے فرمایا «بَقِیَّتُ اللہِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مٰؤْمِنِینَ وَمَا أَنَا عَلَیْکُم بِحَفِیظٍ» (11-ہود:86) اللہ تعالیٰ کے پاس تمھارے لئے خیر ہے اگر تم مومنین ہو ، اور میں تم پر کوئی نگران تو نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرمایا «لاَتَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ» تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز جمعہ کا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے فلاں فلاں لوگو ! تم مسجد سے نکل جاؤ کہ تم منافق لوگ ہو ۔ چنانچہ رسوائی کے ساتھ وہ مسجد سے نکالے گئے ۔ وہ مسجد سے نکل رہے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ کر کہ لوگ پلٹ رہے ہیں تو شاید نماز جمعہ ہو چکی ہے شرما گئے اور شرم کے مارے ان لوگوں سے اپنے آپ کو چھپانے لگے اور یہ لوگ بھی اپنے کو عمر رضی اللہ عنہ سے چھپانے لگے یہ سمجھ کر کہ عمر رضی اللہ عنہما کو بھی ہمارے اس نفاق کا عل ہو گیا ہے غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں آئے تو معلوم ہوا کہ ابھی نماز نہیں ہوئی اور ایک مسلمان نے انہیں اطلاع دی اور کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ خوش ہو جاؤ کہ آج منافقین کو اللہ نے رسوا کر دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ مسجد سے نکالا جانا عذابِ اوّل ہے اور عذاب ثانی عذاب دنیا اور عذاب قبر ہو گا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17137:ضعیف) ثوری رحمہ اللہ نے بھی بالاسناد یہی کہا ہے مجاہد رحمہ اللہ نے قولہ تعالیٰ «سَنُعَذَّبُھُمْ مَزَّبَیْنِ» کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد قتل اور قید ہے اور ایک دوسری روایت میں بھوک اور عذابِ قبر سے تعبیر کی گئی ہے ۔ پھر وہ عذاب عظیم کی طرف روکے جائیں گے ابن جریج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ عذاب قبر مراد ہے پھر وہ عذاب عظیم یعنی عذاب روزخ میں مبتلا کئے جائیں گے ، حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے دنیا کا اور قبر کا عذاب مراد ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں کہ دنیا کا عذاب اموال اور اولاد کے فتنہ کا عذاب ہے پھر اللہ کا یہ قول پڑھ کر سنایا «وَلَا تُعْجِبْکَ أَمْوَالُہُمْ وَأَوْلَادُہُمْ إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ أَن یُعَذِّبَہُم بِہَا فِی الدٰنْیَا» ( 9- التوبہ : 55 ) یعنی ان کافروں کے اموال اور اولاد تم کو حسد میں مبتلا نہ کر دیں اللہ کا منشا یہ ہے کہ ان چیزوں کے ذریعہ دنیا کی زندگی ہی میں اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے کیونکہ یہ مصائب ان کے لئے عذاب ہیں لیکن مومنین کے لئے باعث اجر ہیں اور آخرت کے عذاب سے مراد دوزخ کا عذاب ہے ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ پہلے عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جو اسلام کے پھیل جانے سے انہیں پہنچا ہے اور بے انتہا رنج و افسوس جو ان پر طاری ہوا ہے ۔ دوسرا عذاب قبر کا عذاب ہے اور عذاب عظیم وہ ہےجو آخرت میں انہیں ملے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کا ملے گا ۔ سعید نے قتادہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے کان میں کہا کہ بارہ منافقین ہیں ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہے یہ نار جہنم کا ایک شعلہ ہو گا جو ان کے کاندھے پر لگے گا تو سینے تک پہنچے گا یعنی پیٹ کے درد اندرونی بیماریوں اور دمبلوں سے مریں گے اور چھ اپنی موت سے مر جائیں گے ۔ سعید رحمہ اللہ نے ہم سے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کوئی مرتا اور وہ ان کی نظر میں مشتبہ ہوتا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے ۔ اگر وہ اس میت کی نماز جنازہ پڑھتے تو خود بھی پڑھتے ، یہ یقین کرکے کہ یہ میت ان بارہ منافقین میں سے نہیں ہے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ اگر نہ پڑھتے تو پھر خود بھی نہ پڑھتے ، معلوم ہوا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی پوچھا تھا کہ اللہ کی قسم بتادو کہ میں ان بارہ میں سے تو نہیں ہوں تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نہیں ہو ، لیکن تمھارے سوا میں کسی اور ی ذمہ داری نہیں لیتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17145:مرسل و ضعیف)