سورة التوبہ - آیت 12

وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سوگند سو گند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لیے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے) باز آجائیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو ۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ ” جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے ، دین میں عیب جوئی کرے ، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر دیا جائے “ ۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں ۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے ۔ ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے ۔ ایک خارجی نے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ” یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے “ آپ نے فرمایا : ” تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا “ ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ ” تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہو گی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ! ان میں سے ہر ایک کا قتل اور ستر لوگوں کے قتل سے مجھے زیادہ پسند ہے اسلیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو “ ( ابن ابی حاتم )