سورة الانعام - آیت 118

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

چنانچہ ہر اس (حلال) جانور میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اگر تم واقعی اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔ (٥٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح گمراہ اکثریت کی اتباع جائز نہیں اسی طرح اس جانور کو بھی کھاناجائز نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ بے شک حرام کھانے والوں کی اکثریت ہی کیوں نہ ہوں۔ سرزمین حجاز اور مکہ میں ایسے قبائل بھی تھے جو جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتے تھے جس طرح کہ سکھ مذہب کے لوگ جانور حلال کرتے ہوئے اس کا جھٹکا کرتے ہیں پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مردہ جانور کھاتے تھے جب انھیں اس سے روکا جاتا تو وہ کہتے کہ مسلمانوں کی عجب حالت ہے کہ اللہ کے مارے ہوئے کو نہیں کھاتے لیکن اپنے ہاتھ سے مارے ہوئے کو کھا لیتے ہیں۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مسلمانو! تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ صرف وہی ذبیحہ کھاؤ جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، پھر ان لوگوں کو مخاطب کیا کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کا حلال کردہ ذبیحہ نہیں کھاتے جس کو ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا گیا ہے۔ حرام کھانا تمھارے لیے اس وقت ہی جائز ہوگا جب تمھیں حلال چیز میسر نہ ہو اور تم اسے کھانے کے لیے بے حد اضطرار کی حالت میں ہو۔ اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ حرام کھانا اس وقت جائز ہوگا جب آدمی کو یقین ہو کہ واقعی مجھے اس وقت حلال میسّر نہیں ہوسکتا۔ اگر میں کچھ نہ کھاؤں گا تو میری موت واقع ہوجائے گی ایسا شخص اپنے آپ کو مضطر تصور کرتے ہوئے اتنا ہی حرام کھا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی بچ سکے۔ اس فرمان سے پہلے گمراہ قسم کی اکثریت کی اتباع سے روکا گیا ہے اب حرام خوری سے منع کرنے کے لیے پھر گمراہ اکثریت کی اتباع سے روکا گیا ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی علمی بنیاد کے بغیر محض اپنے تصورات کی بناء پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے حلال و حرام میں تجاوز کرنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ (عن عُمَر بن أَبِی سَلَمَۃَ (رض) یَقُولُ کُنْتُ غُلَامًا فِی حَجْرِ رَسُول اللّٰہِ () وَکَانَتْ یَدِی تَطِیشُ فِی الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِی رَسُول اللّٰہِ () یَا غُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِی بَعْدُ)[ رواہ البخاری : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الأکل والأکل بالیمین] ” عمر بن ابی سلمہ (رض) فرماتے ہیں میں بچپن میں رسول مکرم (ﷺ) کے پاس تھا اور کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ پیالے میں اردگرد گھوم رہا تھا مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اے بچے کھانا اللہ کے نام سے شروع کیا کرو دائیں ہاتھ اور اپنے آگے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے میرا کھانے کا انداز یہی رہا۔“ (عَنْ جَابِرٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ لَا تَأْکُلُوا بالشِّمَالِ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْکُلُ بالشِّمَالِ) [ رواہ مسلم : کتاب الأشربۃ باب اداب الطعام] ” حضرت جابر (رض) رسول معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا تم بائیں ہاتھ سے نہ کھایا کرو بلاشبہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کا نام لے کر کھانے کی ابتدا کرنی چاہیے۔ 2۔ جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا چاہیے۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت کے پاس شریعت کا علم نہیں ہوتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو واضح فرما دیا ہے۔ 5۔ اپنی خواہشات کے بجائے شریعت پر عمل کرنا چاہیے۔ 6۔ لوگوں کی جمہوریت گمراہ ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : کسی چیز پر غیر اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے : 1۔ اللہ نے جو تمھیں رزق دیا ہے اس پر اللہ کا نام لو۔ (الحج :34) 2۔ کھانے پینے پر اللہ کا نام لینا چاہیے۔ (المائدۃ:4) 3۔ وہ چیز کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (انعام :118) 4۔ کسی شخص کو حرام وحلال فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں (النحل :116)