سورة النسآء - آیت 115

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ﷺ) کو لوگوں کے لیے رہنما اور مقتدا بنا کر بھیجا ہے۔ رسول محترم (ﷺ) کی پیروی اور اتباع کو اپنی اتباع قرار دیا، اپنی محبت اور بخشش کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ اس لیے جلوت اور خلوت میں رسول کی اتباع ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو شخص یا جماعت رسول کی ہدایت اور سنت سامنے ہونے کے باوجود رسول معظم (ﷺ) کی پیروی سے انحراف اور صحابہ کرام کے طریقہ کو چھوڑتے ہیں وہ لوگ جدھر چاہیں اور جس طرح چاہیں منہ اٹھا کر چل نکلیں وہ جہنم میں ہی گرنے والے ہیں جو بدترین جائے قرار ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اتباع رسول کے ساتھ صحابہ کی اتباع کا بھی حکم دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے رسالت مآب (ﷺ) سے براہ راست رہنمائی اور فیض حاصل کیا۔ البقرۃ آیت 13اور آیت 137میں ان کے ایمان کو ہمیشہ کے لیے مثال اور نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ آمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا﴾ [ البقرۃ:137] ” اگر وہ تمہارے یعنی صحابہ جیسا ایمان لے آئیں تو یقیناً وہ ہدایت سے سر فراز ہوجائیں گے“ اس لیے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کام پر صحابۂ کرام (رض) کا اجماع ہو۔ وہ امت کے لیے دلیل اور واجب اتباع ہوگا۔ بعض لوگ حدیث رسول (ﷺ) اور اجماع صحابہ (رض) کو چھوڑ کر کسی ایک صحابی کے انفرادی عمل کو اپنے لیے قابل حجت سمجھتے ہیں۔ جو سراسر قرآن کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جہاں تک کسی صحابی کے انفرادی عمل کا تعلق ہے اگر وہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس کی تاویل کرنا ہوگی کہ اس صحابی کو رسول معظم (ﷺ) کا فرمان نہیں پہنچا، یا اسے سمجھنے میں سہو ہوئی ہے۔ جس کی مثال حضرت ابوذر غفاری (رض) کا تین دن سے زیادہ کسی چیز کو گھر میں رکھنا خلاف شرع سمجھنا ہے۔ بعض لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ایک آدھ انفرادی عمل کو اپنے لیے حجت قرار دیتے ہوئے تائید کے طور پر حدیث رسول پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے : (أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ)[ جامع الاصول من احادیث الرسول] ” میرے صحابہ ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں جس نے کسی صحابی کی پیروی کی وہ ہدایت پا جائے گا“ حالانکہ یہ روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ)[ رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ]. ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (ﷺ) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے‘ جن کی گواہی کی قسم سے‘ اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ جہاں تک کسی دور کے علماء کے اجماع کا تعلق ہے وہ قرآن و سنت کے تابع ہو تو قابل حجت ہوگا۔ بصورت دیگر اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ شریعت میں دلیل معیار ہے اقلیت اور اکثریت معیار نہیں ہے۔ لہٰذا صحابہ کا اجتماعی طرز فکر اور عمل امت کے لیے حجت ہے۔ سورۃ فاتحہ کے آخری کلمات اسی راستے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جو اس راستے سے جتنا ہٹے گا اتنا ہی گمراہی کی طرف جائے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَلَمَّا زَاغُوْا أَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ﴾ [ الصف :5] ” جب وہ سیدھی راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں میں کجی پید اکردی۔“ ﴿وَنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ﴾ [ الانعام :110] ” انہیں ان کی سرکشی میں رہنے دیتے ہیں اور وہ حیران پھرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) کے راستے کو چھوڑنا جہنم کا راستہ اپنانے کے مترادف ہے۔ 2۔ جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : اتباع صحابہ (رض) : 1۔ انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا۔ (الفاتحہ :6) 2۔ صحابہ کا ایمان ہدایت کی کسوٹی۔ (البقرۃ:137) 3۔ مومن کو مومنوں کا دوست ہونا چاہیے۔ (التوبۃ:71) 4۔ الٰہی ہمیں شاہدین کے ساتھ لکھنا۔ (آل عمران :53) 5۔ موت کے بعد نیک لوگوں کی رفاقت۔ (آل عمران :193) 6۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا۔ (یوسف :101)