سورة آل عمران - آیت 14

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انسان کے لیے مرد و عورت کے رشتہ میں، اولاد میں، چاندی سونے کے ذخیروں میں، چنے ہوئے گھوروں میں، مویشی میں اور کھیتی باری میں دل کا اٹکاؤ اور خوش نمائی رکھ دی گئی ہے۔ (اس لیے قدرتی طور پر تمہیں بھی ان چیزوں کی خواہش ہوگی) لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : حق سے انحراف اور قوموں کی تباہی میں دنیا پرستی کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے اس لیے اس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ہدایت کے راستے میں جو چیزیں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں سر فہرست عورت، بیٹے، سونا، چاندی، سواری، مال، مویشی اور کھیتی باڑی ہے۔ ہر انسان ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرورت سے زیادہ محبت کرتا ہے اور یہی چیز راہ ہدایت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ خواہشات کے میدان میں عام طور پرسب سے پہلی خواہش عورت کے ساتھ مرد کی وابستگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بطور آزمائش آدمی کے دل میں ان چیزوں کی محبت اور رغبت پیدا فرمائی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اگر عورت کے ساتھ مرد کی رغبت اور محبت نہ ہو تو نسب کا سلسلہ آگے نہیں چل سکتا۔ اسی تعلق کی خاطر اور ضرورت سے آدمی بیوی کو کھلاتا پلاتا اور اس کی آسائش وآرام کا خیال رکھتا ہے۔ اگر اولاد نہ ہو تو آدمی کی دنیا سے رغبت کم ہوجاتی ہے پھر اولاد میں بیٹوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ بیٹا ماں باپ کا سہارا اور ان کے سلسلۂ نسب اور جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتا ہے۔ جب کہ بیٹے کو اپنا معاون اور مستقبل کا سہارا سمجھتا ہے۔ طبع انسانی کا خیال رکھتے ہوئے بیٹوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ بیوی اور بیٹوں کے بعد دنیا کا نظام چلانے اور سہولیات حاصل کرنے کے لیے سونا اور چاندی ہمیشہ سے انسان کے لیے پر کشش سرمایۂ حیات رہا ہے۔ سونے اور چاندی کی بدولت ہی دنیا میں لین دین اور تجارت ہوا کرتی ہے۔ کاروبار کے بعد اچھی سواری آدمی کے لیے آرام کے ساتھ ساتھ باعث عزت ہوتی ہے۔ ہر دور میں گھوڑے کی سواری آدمی کے لیے شان وشوکت کا باعث سمجھی گئی ہے اور آج بھی موٹر کاروں اور مشینری کی پاور کا اندازہ کرنے کے لیے گھوڑے کی طاقت [HORSE POWER] کو معیار بنایا گیا ہے۔ گھڑسواری ہمیشہ لوگوں کے لیے باعث فخر و انبساط رہی ہے۔ یہ جانور بہترین سواریوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان چیزوں کے بعد کھیتی باڑی اور چوپایوں کی باری آتی ہے جو انسانی بقا کے لیے غلہ، رہائش، دودھ، مکھن، گوشت اور خوراک کا کام دیتے ہیں۔ دیہاتی زندگی اور زمیندار کی یہی چیزیں متاع حیات ہیں۔ اس لحاظ سے انسانی زندگی کا دارو مدار عورت، اولاد، سونا، چاندی، رہائش اور خوراک پر ہے باقی تمام نعمتیں انہی کے متعلّقات اور لوازمات ہیں۔ ان نعمتوں کی افادیت اپنی جگہ مسلّم اور انہیں دنیا کی زندگی کے بہترین اسباب اور زینت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آدمی کی دانشمندی یہ ہے کہ وہ عارضی زندگی اور اس کے اسباب پر نگاہ جمانے اور اکتفا کرنے کی بجائے حیات جاوداں‘ لازوال نعمتوں اور ان کے خالق و مالک کی طرف توجہ رکھے اور دنیا کے ذریعے آخرت کے انعامات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے جو رب کریم کے پاس صاحب ایمان وکردار لوگوں کے لیے محفوظ ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ ( ) مُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسْطِ خَارِجًا مِّنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ وَقَالَ ھٰذَا الْإِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ أَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے ایک مربع نمالکیر کھینچی اور اس کے درمیان سے باہر نکلی ہوئی لکیر لگائی پھر اس درمیانی لکیر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو اس خانے سے باہر لکیر ہے یہ اس کی خواہشات ہیں اور یہ چھوٹی لکیریں آفات ہیں اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ اگر اس سے بچتا ہے تو اور کوئی اسے آ لیتی ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں، بیٹوں، سونا، چاندی، گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتیوں کو لوگوں کے لیے خوش نما بنایا ہے۔ 2۔ یہ دنیا کی زندگی کے اسباب ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے بہتر مقام اور انعام ہے۔