سورة البقرة - آیت 261

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، ان کی (نیکی اور نیکی برکتوں کی) مثال اس بیج کے دانے کی سی ہے جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ (جب بویا گیا تھا تو صرف ایک دانہ تھا۔ لیکن جب بار آور ہوا، تو) ایک دانہ سے سات بالیاں پیدا ہوگئیں، اور ہر بالی میں سو دانے نکل آئے۔ (یعنی خرچ کیا ایک اور بدلے میں ملے سینکڑوں !) اور اللہ جس کسی کے لیے چاہتا ہے، اس سے بھی دوگنا کردیتا ہے۔ وہ بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : یہاں سے صدقات کے بارے میں خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ آیات میں صدقہ کرنے کا حکم تھا اور صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔ اب صدقہ کی فضیلت‘ اس کی قبولیت کے اصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے گئے صدقات کے دنیا اور آخرت میں ثمرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء میں ایمان کے مرکزی اور بنیادی اصولوں میں تیسرا اصول یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اب اسی بنیادی رکن کی مختلف زاویوں سے وضاحت شروع ہوتی ہے جس میں فضیلت، فرضیت اور احتیاطی ہدایات مسلسل 23 آیات میں بیان کی گئی ہیں جو چار رکوع پر مشتمل ہیں۔ صدقات کی ترغیب سے پہلے موت کے بعد اٹھنے کے تین دلائل دیے گئے ہیں۔ ان کی حکمت یہ ہے کہ مرنے کے بعد جس طرح دوسرے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی اسی طرح اللہ کے راستے میں کیے گئے صدقات کا نیت اور صدقے کے مطابق پورا پورا اجر ملے گا۔ لہٰذا ترغیب دی جارہی ہے کہ مرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ اپنے لیے آگے بھیجو۔ تاکہ مشکل وقت میں تمہارے کام آسکے۔ صدقے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ صدقہ ہر حال میں اللہ کی رضا اور اس کی منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسے صدقے کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی سو دانہ اٹھائے ہوئے ہو۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب کاشتکار نے صحیح بیج‘ مناسب وقت اور زرخیز زمین پر کاشتکاری کر کے اس کی اچھی طرح آبیاری اور نگرانی کی ہو۔ ایسی برکت اللہ تعالیٰ ہر اس صدقے میں پیدا فرمائے گا جو اخلاص، للہیت، رزق حلال اور مستحق جگہ اور سنت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ ایسے صدقہ کے بارے میں سات سو گنا بڑھانے کی حد بندی نہیں بلکہ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے اخلاص اور جذبات کے مطابق اسے اس سے زیادہ برکت سے نوازیں گے کیونکہ اللہ وسعت وکشادگی دینے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ قائم نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتا ہے جو اس قدر اپنے شیئر ہولڈر کو منافع دینے کے لیے تیار ہو۔ جس قدر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے اور کرے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ بَیْنَا رَجُلٌ بِفَلَاۃٍ مِّنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِیْ سَحَابَۃٍ إِسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَاءَ ہٗ فِیْ حَرَّۃٍ فَإِذَا شَرْجَۃٌ مِنْ تِلْکَ الشَّرَاجِ قَدِاسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّہٗ فَتَتَبَّعَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِیْ حَدِیْقَتِہٖ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِہٖ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ مَااسْمُکَ قَالَ فُلَانٌ لِلْإِسْمِ الَّذِیْ سَمِعَ فِی السَّحَابَۃِ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ لِمَ تَسْأَلُنِیْ عَنِ اسْمِیْ فَقَالَ إِنِّیْ سَمِعْتُ صَوْتًا فِی السَّحَابِ الَّذِیْ ھٰذَا مَاءُ ہٗ یَقُوْلُ اسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ لِإِسْمِکَ فَمَا تَصْنَعُ فِیْھَا قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ ھٰذَا فَإِنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی مَایَخْرُجُ مِنْھَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہٖ وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِیْ ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِیْھَا ثُلُثَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب الصدقۃ فی المساکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : صحرا میں ایک آدمی نے بادلوں میں آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ تو وہ بادل دوسرے بادلوں سے علیحدہ ہوگیا اور اپنا پانی ایک پتھریلی زمین پر برسایا وہاں ایک نالا پانی سے بھر گیا وہ آدمی اس کے پیچھے پیچھے چلا ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسّی کے ساتھ پانی لگارہا تھا۔ اس آدمی نے پوچھا اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا : فلاں، وہی نام جو مسافر نے بادلوں میں سناتھا۔ نام بتانے والے نے وجہ پوچھی تو سائل نے جواب دیا کہ میں نے اس بارش برسانے والے بادل میں یہ سنا کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ۔ آپ ایسا کونسا عمل کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ آپ نے پوچھ لیا ہے تو سنیں کہ میں اس باغ کی کل آمدنی سے ایک تہائی صدقہ کرتاہوں‘ ایک تہائی سے گھر کے اخراجات چلاتاہوں اور ایک تہائی اس پر لگاتاہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو سات سو گنا سے زیادہ اجر ملے گا۔ تفسیربالقرآن : صدقہ میں برکت : 1۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 2۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 3۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ:261) 4۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ:261)