سورة البقرة - آیت 166

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جب ایسا ہوگا کہ وہ (جھوٹے پیشوا) جن کی پیروی کی گئی تھی ( بجائے اس کے کہ اپنے پیروؤں کے کام آئیں) اپنے پیروؤں سے بیزار ظاہر کرنے لگیں گے (یعنی کہیں گے ہمیں ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں) کیونکہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان باہمی رشتوں وسیلوں کا تمام سلسلہ ٹوٹ جائے گا ( کہ نہ تو کوئی کسی کا ساتھ دے گا اور نہ کسی کو کسی کی فکر ہوگی)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 166 سے 167) ربط کلام : مشرک سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور دنیا میں غیر اللہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے پر پھٹکار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی واحد معبود ہے اور وہی کائنات کا خالق ومالک اور کائنات کے نظام کو چلائے ہوئے ہے۔ اس کے نظام میں کوئی ذرّہ برابر بھی دخل ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس نے نظام کائنات میں کسی کو اپناہمسر اور شریک کار نہیں بنایا اور آخرت میں بھی کوئی اس کے اختیارات اور نظام میں کوئی دم مارنے کی ہمت نہیں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں پیروں، فقیروں، حکمرانوں اور باطل معبودوں یہاں تک کہ دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات سے بڑھ کر دوسروں سے محبت کرتے اور تعلق جوڑتے ہیں قیامت کے دن یہ ظالم اور مشرک رب ذوالجلال کی جلالت وجبروت اور عذاب کو دیکھیں گے تو ان کے تمام واسطے اور رابطے کٹ جائیں گے۔ یہاں تک کہ پیرمُرید سے، طالب مطلوب سے، حاکم محکوم سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ جو مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما اپنی ذات اور مفاد کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان سے ہٹایا کرتے تھے جب وہ پوری طرح جان جائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ کی قوت وطاقت کے سوا کسی کی کوئی طاقت نہیں اور نہ کوئی وسیلہ کار گر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ور کر اور مرید اللہ تعالیٰ سے آرزو کریں گے کہ اِلٰہی! ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دے تاکہ ہم ان ظالم رہنماؤں اور مشرک پیروں سے اسی طرح نفرت کا اظہار کریں جس طرح آج وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ حکم ہوگا کہ اب تم نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ اس دن سے ان کی پریشانیوں اور حسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ان کو عذاب سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا۔ دنیا کے تمام اعمال ضائع، رہنماؤں کے وعدے اور سہارے جھوٹے ثابت ہوئے ہوں گے۔ واپسی کے تمام راستے بند اور ہر قسم کی آہ و زاریاں بے کارثابت ہوں گی، یہ مایوس ہو کر دوسری درخواست پیش کریں گے کہ اے رب ذوالجلال! پھر ظالم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کودُگنے عذاب میں مبتلا کیجیے۔ (الاحزاب :67) جواب آئے گا سب کو دوگنا عذاب دیا جارہا ہے۔ (الاعراف :38) مسائل : 1۔ عذاب دیکھ کر پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے ور کروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ 2۔ جہنم کا عذاب دیکھ کر جہنمیوں کی تمام امیدیں ختم ہوجائیں گی۔ 3۔ جہنمی دنیا میں واپس آنے اور اپنے پیروں، لیڈروں سے قطع تعلق کرنے کی تمنا کریں گے۔ 4۔ جہنمی اپنے اعمال پر ہمیشہ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے رہیں گے۔ 5۔ مشرک اور کافر جہنم سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ تفسیربالقرآن : قیامت کے دن باطل عابد و معبود میں نفرتیں اور بیزاریاں : 1۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : 28تا30) 2۔ جب مشرک شریکوں کو دیکھیں گے کہیں گے یہی ہیں وہ جنہیں ہم تیرے سو اپکارتے تھے۔ تو وہ ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل :86) 3۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ (فاطر :14) 4۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کی دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف :6) 5۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم :13) 6۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰمٰ السجدہ :48)