سورة ھود - آیت 82

فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو (اے پیغمبر) ہم نے اس (بستی) کی تمام بلندیاں پستی میں بدل دیں۔ (یعنی تمام بلند عمارتیں گرا کر زمین کے برابر کردیں) اور اس پر آگ میں پکے ہوئے پتھر لگاتار برسائے کہ تیرے پروردگار کے حضور (اس غرض سے) نشانی کیے ہوئے تھے۔ (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 82 سے 83) ربط کلام : قوم لوط پرنازل ہونے والے عذاب کی کیفیت بیان کی جارہی ہے۔ قوم لوط نے نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مرتکب چکے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ ﴿أَئِنَّکُمْ لَتَأْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَأْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلَّا أَنْ قَالُوْا ائْتِنَا بِعَذَاب اللَّہِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ﴾[ العنکبوت :29] ” کیا تم لوگ مردوں کے پاس جاتے ہو، راہزنی کرتے اور اپنی مجالس میں برے کام کرتے ہو۔ اس کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہنے لگے اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔“ سورۃ الشعراء کی آیت 160تا 166میں یوں ارشاد ہوتا ہے کہ : قوم لوط نے بھی پیغمبر کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ جو تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے بڑھنے والے ہو۔ قوم لوط پر جس علاقے میں عذاب نازل ہوا اسے بحرِمردار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ جو پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ 351مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحیرہ روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق شیخ عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے پانی کی خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کے علاقے کو الٹا دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی۔ 3۔ ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ 4۔ حضرت لوط کی بیوی بھی اپنی قوم کے ساتھ تباہ ہوئی۔ تفسیر بالقرآن : قوم لوط پر عذاب کی کیفیت : 1۔ جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسا دی۔ (ھود :82) 2۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر :73) 3۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف :84) 4۔ ہم نے قوم لوط پر پتھر برسائے۔ (القمر :34) 5۔ قوم لوط پر کنکر کے پتھر برسائے گئے۔ (الذاریات :33)