سورة ھود - آیت 31

وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں، نہ میرا یہ دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اللہ انہیں کوئی بھلائی نہیں دے گا (جیسا کہ تمہارا اعتقاد ہے) اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے دلوں میں ہے، اگر میں (تمہاری خواہش کے مطابق) ایسا کہوں تو جونہی ایسی بات کہی میں ظالموں میں سے ہوگیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو چوتھا جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کو فقط اتنی دعوت دی تھی کہ اے لوگو! اللہ ہی سب کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ لہٰذا ادھر ادھر کے واسطے چھوڑ کر براہ راست صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ مگر قوم نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر اعتراضات کیے اور ان سے مختلف قسم کے مطالبات کرنے شروع کردیئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے بالترتیب یہ جواب دیئے : 1۔ اے میری قوم! اللہ نے مجھے اپنی رحمت کے ساتھ منتخب فرماکر حق کے ٹھوس اور واضح دلائل دیئے ہیں۔ اگر تم جان بوجھ کر انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں ہدایت کو کس طرح تم پر مسلط کرسکتا ہوں۔ 2۔ اے میری قوم کے لوگو! نہ تم سے اس کام کا معاوضہ طلب کرتا ہوں اور نہ ہی تمہارے کہنے پر صاحب ایمان لوگوں کو اپنے سے دور کرسکتا ہوں۔ 3۔ اے میری قوم! اگر میں مخلص اور نیک لوگوں کو تمہاری وجہ سے اپنے آپ سے دور کردوں تو اس جرم پر اللہ تعالیٰ کے سامنے میری کون مدد کرسکتا ہے؟ باطل پرست لوگوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو الجھانے کے لیے وہ باتیں کرتے ہیں۔ جن کا حق والوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور ان باتوں کا سب سے پہلے نشانہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مقدس شخصیات کو بنایا گیا، عجب بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہی ہوگئی تھی۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر مذکورہ بالا اعتراضات کے ساتھ یہ مطالبات کیے گئے جن کے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ جوابات دیئے : 1۔ اے میری قوم! میں نے یہ کب دعویٰ کیا تھا کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک ہوں اور تم میری نبوت کو تسلیم کرو میں تمہارے لیے شہد کی نہریں بہادوں گا۔ خزانوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنی تقسیم کے مطابق جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ 2۔ اے میری قوم : میں نے کبھی غیب دانی کا دعویٰ نہیں کیا۔ غیب کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور نبی نہیں جانتا کسی کو کوئی خبر نہیں کی چند لمحوں کے بعد کیا کچھ ہونے والا ہے۔ 3۔ اے قوم! تم مجھ پر یہ بھی اعتراض کرتے ہو میں شکل وصورت اور انسانی حاجات کے حوالے سے تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جس طرح تمہارے ایک دوسرے کے ساتھ رشتے ناطے ہیں۔ اسی طرح میرا بھی تمہارے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول منتخب کیا ہے۔ لہٰذا میں فقط اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اس لیے مجھ سے یہ امید رکھنا کہ میں فرشتہ بن جاؤں ایک بشر کے لیے یہ ممکن نہیں اور نہ ہی میں نے فرشتہ ہونے کا کبھی دعویٰ کیا ہے۔ 4۔ اے لوگو! میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جنہیں تم اپنے سے کم تر سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں کسی خیر سے نہیں نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اخلاص کو جانتا ہے۔ اگر میں تمہارے مطالبہ پر انہیں اپنے آپ سے دور کردوں۔ تو یقیناً میں اس وقت ظالموں میں شمارہوں گا۔ جیساکہ اس سے پہلے آیت نمبر ٢٧ کی تفسیر میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ منکرین حق نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ کہہ کر مطالبہ کیا تھا کہ اے نوح! تیرے ماننے والے سماجی زندگی کے اعتبار سے ادنیٰ لوگ ہیں اگر ہم سے ایمان لانے کی توقع رکھتے ہو تو ان کو اپنے آپ سے دور کردو جس کا نوح (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تھا کہ میں نیک لوگوں کو اپنے آپ سے کس طرح دور کرسکتا ہوں ؟ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی جواب دیا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ انہیں خیر سے نہیں نوازے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایمانداروں کو خیر سے نہ نوازنے کا کفار کا عقیدہ دو طرح سے تھا۔ ایک تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ دین کے حوالے سے کاروبار میں جس طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں اس طرح یہ کبھی بھی دنیا میں خوشحالی اور ترقی نہیں پاسکتے۔ دوسرا اس لیے کہتے تھے کہ جس طرح ہم ایمانداروں کے مقابلے میں دنیا میں بہتر ہیں اور آخرت میں بھی ان سے بہتر ہوں گے۔ مسائل : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس دنیا کے خزانے نہیں تھے۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرشتہ نہیں تھے۔ 4۔ دنیا دار نیک لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ 5۔ دلوں کی کیفیت جاننے والاصرف ایک اللہ ہے۔ 6۔ دین والوں کو حقیر جاننے والا ظالم ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : 1۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود :31) 2۔ آپ فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام :50) 3۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 4۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 5۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام :59)