سورة الانفال - آیت 45

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانو ! جب (حملہ آوروں کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 46) ربط کلام : غزوۂ بدر کے واقعات کی روشنی میں آئندہ کے لیے ہدایات۔ غزوۂ بدر کے معرکہ سے پہلے مسلمانوں میں اس بات پر کچھ اختلاف تھا کہ اب اس معرکہ کی ضرورت ہے یا واپس مدینہ پلٹ جانا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ معرکہ برپا ہو۔ اس لیے مسلمانوں کی کچھ کمزوریوں کو صرف نظر فرما کر ان کی زبردست مدد فرمائی۔ جس کا نتیجہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ اب مسلمانوں کو آئندہ کے لیے ہدایات دی جا رہی ہیں کہ جب تمھارا دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہو۔ تو تمھیں ان باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ بصورت دیگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے محروم ہوجاؤ گے۔ 1۔ جنگ میں ثابت قدمی دکھانا۔ 2۔ مسلسل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ 3۔ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنا۔ 4۔ باہمی اختلاف اور انتشار سے بچ کر رہنا۔ 5۔ عسرو یسر میں مستقل مزاجی اور صبر و حوصلہ کا مظاہرہ کرنا۔ 6۔ اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کو شش کی جائے۔ لیکن اگر کفار تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنیں اور عوام الناس پر مظالم ڈھائیں یا مسلمانوں پر جنگ مسلط کریں تو پھر کفار کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کی بجائے مسلمانوں کو پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے اسی کے پیش نظر رسول اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ کفار سے جنگ کی آرزونہ کرو اگر تم پر جنگ مسلط کی جائے تو پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ (حوالہ بخاری : کتاب القتال) حالت جنگ میں دشمن کے خلاف ثابت قدمی دکھانا پہلی اور بنیادی بات ہے۔ اس کے بغیر جنگ جیتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مجاہد میں ثابت قدمی تبھی پیداہو سکتی ہے جب اس کا دل قائم رہے۔ دل کو قائم رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی دل کی استقامت کے لیے دعا کی جائے۔ دعا کی ایک صورت اللہ تعالیٰ کو مسلسل یاد رکھنا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لوگو! دلوں کا اطمینان اور سکون میرے ذکر میں ہے۔ ( الرعد :28) ذکر جتنی کثرت کے ساتھ کیا جائے گا اتنا ہی دل میں ٹھہراؤ اور سکون پیدا ہوگا۔ جب مجاہد کے قدموں میں ثبات اور اس کے دل میں ٹھہراؤ ہو تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔ جس کی بشارت دی گئی ہے۔ البتہ کامیابی اس وقت ناکامی میں تبدیل ہو سکتی ہے جب جنگ کے دوران اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کی جائے۔ اس سے مراد شریعت کے مقرر کردہ جنگ کے اصول و ضوابط کی پابندی، برائی اور بے حیائی سے اجتناب اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے لڑنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بالعموم اور مجاہدین کو بالخصوص باہمی اختلافات سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر دشمن کو مسلمانوں کے باہمی اختلاف کا علم ہوجائے تو ان کے حوصلے بلند ہوں گے کیونکہ اختلاف کی وجہ سے قوم کا اجتماعی رعب اور دبدبہ ختم ہوجاتا ہے۔ آخر میں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر کا معنی مستقل مزاجی اور تنگی اور خوشحالی میں حوصلہ رکھنا ہے۔ جنگ کے دوران اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جنگ کے دوران بھوک، پیاس اور ہر قسم کی تکلیف سے مجاہد کو واسطہ پڑتا ہے ان حالات میں مجاہدین صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا جس کی تازہ مثال بدر میں مسلمان دیکھ چکے تھے۔ (عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَکَانَ کَاتِبًا لَہٗ قَالَ کَتَبَ إِلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی (رض) فَقَرَأْتُہُ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ () فِی بَعْضِ أَیَّامِہِ الَّتِی لَقِیَ فیہَا انْتَظَرَ حَتَّی مَالَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا قَالَ أَیُّہَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا واعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوفِ ثُمَّ قَال اللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَمُجْرِیَ السَّحَابِ وَہَازِمَ الْأَحْزَابِ اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر ] ” حضرت سالم، ابونضر جو کہ عمر بن عبیداللہ کے غلام ہیں اور وہ ان کے مکاتب ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان کی طرف عبیداللہ بن ابو اوفی (رض) نے خط لکھا میں نے اسے پڑھا۔ اس میں تھا رسول معظم (ﷺ) جن دنوں غزوہ میں کفار کے خلاف برسر پیکار تھے۔ انتظار کیا یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا پھر نبی معظم (ﷺ) نے لوگوں میں کھڑے ہو کر فرمایا اے لوگو! دشمن سے سامنا کی خواہش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ جب تمہارا دشمن سے سامنا ہوجائے تو ڈٹ جاؤ اور جانو بلاشبہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر دعا کی اے اللہ کتاب نازل فرمانے والے اور بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے۔ دشمن کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ مسائل : 1۔ مجاہدین کو جنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 2۔ مسلمان کو ہر وقت بالخصوص حالت جنگ میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ 3۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرنی چاہیے۔ 4۔ باہمی اختلاف سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اختلاف میں ساکھ اور وقار ختم ہوجاتا ہے۔ 5۔ عسر ویسر میں مستقل مزاجی اور صبر و حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا چاہیے : 1۔ صبح اور شام اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔ (آل عمران :41) 2۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ:10) 3۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ:202) 4۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ:198) 5۔ جنگ کے دوران۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال :45) 6۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الاحزاب :41) 7۔ جب نماز ادا کر چکو تو۔ اللہ کو یاد کرو۔ (النساء :103) 8۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35)