سورة البقرة - آیت 4

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نیز وہ لوگ جو اس (سچائی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو تم پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل ہوئی ہے اور ان تمام (سچائیوں پر) جو تم سے پہلے (یعنی پیغمبر اسلام سے پہلے) نازل ہوچکی ہیں اور (ساتھی ہی) آخرت (کی زندگی) کے لیے بھی ان کے اندر یقین ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ایمان کے مرکزی ارکان کا ذکر کرنے کے بعد لفظ ” ما“ استعمال فرما کر ایمان کی ان تمام مبادیات وشروعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی تفصیلات کے لیے رسول کریم {ﷺ}کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں جس میں آپ نے یہی لفظ ” مَا“ استعمال فرما کر اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس جامع تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ ( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جئْتُ بِہٖ) (مشکوٰۃ : کتاب العلم : فصل ثالث) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ اسلام کی وسعت تعلیم کا اندازہ لگائیں کہ وہ صرف قرآن مجید پر ہی نہیں بلکہ پہلی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے بعد وہ منسوخ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود قرآن مجید ان کی حقیقی تعلیمات اور پہلے انبیاء کی تائید کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام انبیاء کی شان اور مقام کے اعتراف و احترام کا حکم دیتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے‘ ان پر نازل ہونے والی کتابیں من جانب اللہ تھیں اور دین کے بنیادی ارکان ہمیشہ سے ایک ہی رہے ہیں لیکن ہدایت کے لیے اب قرآن اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کے لیے جناب محمد {ﷺ}کی ذات گرامی واجب الاتباع قرار پائی ہے۔ ایمان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آپ {ﷺ}نے جبریل امین (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں فرمایا : (اَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلائکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)(رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الإیمان والإسلام والإحسان) ” تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ دوسرے مقام پر رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا : (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ) (رواہ مسلم : باب بیان عدد شعب الإیمان وأفضلھا وأدناھاوفضیلتُہُ) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین ” لَا اِلٰہَ اِلَّااﷲُ“ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔“ ایمان کا معنٰی : ایمان کا معنٰی ہے دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اس کا اظہار کرنے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایقان کا معنٰی : کسی سچائی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس طرح تسلیم کرنا کہ اس میں شک اور تردد کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہ ایقان کا درجہ ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس طرح مانتے اور عمل پیرا ہوتے ہیں وہی ایمان دارہیں۔ جب تک آدمی آخرت پر سچا ایمان نہ لائے اس وقت تک اس کی زندگی پر قرآن و سنت کے پورے اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول {ﷺ}کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ عقیدۂ آخرت پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکو کاروں کو پورا پورا اجر اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی انسان کو درست رکھ سکتا ہے۔ مسائل : 1- قرآن مجید‘ پہلی آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن : آخرت پر یقین محکم ہونا چاہیے : 1- آخرت برحق اور اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 2- ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ :3) 3- اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) 4- آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام :151) 5- اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (العنکبوت :64) 6- اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: 69) 7- آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد: 26) 8-اخروی زندگی ہی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلی: 18)