سورة الاعراف - آیت 203

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوتا ہے کہ تم ان کے پاس کوئی نشانی لے کر نہ جاؤ (جیسی نشانیوں کی وہ فرمائشیں کیا کرتے ہیں) تو کہتے ہیں کیوں کوئی نشانی پسند کر کے نہ چن لی (یعنی کیوں اپنے جی سے نہ بنا لی) تم کہہ دو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرتا ہوں (میرے ارادے اور پسند کو اس میں کیا دخل؟) یہ (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے سرمایہ دلائل ہے اور ان سب کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں ہدایت اور رحمت۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 203 سے 204) ربط کلام : یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ دلائل اور معجزات دیکھنے اور جاننے کے باوجود کفار ہر روز نئے سے نیا مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں مزید معجزات دکھائے جائیں۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن سے بڑھ کر کونسا معجزہ ہوسکتا ہے۔ مکے کے کفار اور مدینہ کے اہل کتاب نبی اکرم (ﷺ) سے ایک سے ایک بڑھ کر سوال اور معجزات طلب کیا کرتے تھے۔ ان کے ہر معقول سوال کا مؤثر اور مدلل جواب دیا گیا اور ان کے مطالبہ پر بڑے بڑے معجزات بھی پیش کیے گئے۔ لیکن ان کے دل میں کھوٹ اور طبیعت میں بہانہ سازی کا عنصر غالب تھا جس وجہ سے وہ ایک مطالبہ پورا ہونے کے بعد دوسرا پیش کردیا کرتے تھے۔ اور کبھی کہتے یہ تو تیری جادوگری کا کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا جواب دینے کے لیے آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ فقط یہ فرمائیں میں تو ایک رسول ہونے کی حیثیت سے وحی الٰہی کی اتباع کا پابند ہوں۔ جہاں تک دلائل اور معجزہ کا تعلق ہے وہ قرآن مجید فرقان حمید کی شکل میں تمھارے سامنے ہے جس کا جواب آج تک تم سے نہیں بن سکا اور قیامت تک اس کا جواب پیش نہیں کرسکو گے۔ اگر تم اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو اور قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنو تو یقیناً تم پر اللہ کا کرم اور اس کی مہربانی نازل ہوگی کیونکہ یہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت اور ان کی مشکلات کے مداوا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ لیکن کفار کا وطیرہ تھا اور ہے کہ قرآن پڑھنے اور سننے کے بجائے جونہی قرآن کی تلاوت شروع ہو تو اتنا شور و غوغا کرو کہ تم قرآن پر غالب آجاؤ۔ (سورۂ حٰم السجدہ، آیت : 36) بعض اہل علم نے تلاوت قرآن کو خاموشی کے ساتھ سننے کے حکم کو نماز پر منطبق کیا ہے جس کی بناء پر ان کا خیال ہے کہ جب امام نماز میں بلند آواز سے قراءت کرے تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے ابتدا میں یہ صرف علمی بحث تھی لیکن جونہی ائمہ کی تقلید کا مسئلہ پیدا ہوا تو پھر اس میں یہاں تک تشدد پیدا ہوا کہ بعض لوگ من گھڑت روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ جو شخص امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھے گا اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ ڈالی جائے گی حالانکہ اس کا حدیث کی کتب میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے نبی اکرم (ﷺ) نے جہری نماز میں امام کے پیچھے صرف قرآن مجید کی تلاوت سے منع کیا ہے باقی فاتحہ سمیت پوری نماز امام کے پیچھے پڑھنی ہے۔ کیونکہ یہ آیت مبارکہ نماز کے بجائے کفار کے سورۃ حٰم السجدہ کے جواب میں نازل ہوئی تھی اس کا تعلق نماز کے بجائے تبلیغ کے ساتھ ہے اگر کوئی صاحب علم اس آیت کو عموم پر قیاس کرتا ہے تو پھر بھی اس کا اطلاق فاتحہ پر نہیں ہوتا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے حدیث میں فاتحہ کا الگ ذکر کیا گیا۔ مسائل : 1۔ معجزات نبی مکرم (ﷺ) کے اختیار میں نہیں تھے۔ 2۔ نبی کریم (ﷺ) وحی کے پابند تھے۔ 3۔ قرآن مجید ہدایت اور رحمت سے بھرپور ہے۔ 4۔ قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) وحی کے پابند تھے : 1۔ آپ (ﷺ) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب :2) 2۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف :9) 3۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمھیں ڈراؤں۔ (الانعام :19) 4۔ نبی (ﷺ) دین کے متعلق اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : 3تا4)