سورة النسآء - آیت 88

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یہ آیات کب اتریں اور ان میں منافقین سے مراد کون لوگ ہیں اس بارے میں صحابہ (رض) کرام سے مختلف روایات ہیں حضرت زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ آپﷺ کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے واپس ہوگئے (ابن ابی اور ان کے ساتھی) اس کے بارے میں میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے ایک گروہ کہنے لگا کہ ہم انہیں قتل کریں اور دسرا گروہ اس کے خلاف تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو (بخاری ومسلم) امام شوکانی فرماتے ہیں ؛ نزول کے اسباب میں یہ روایت سب سے اصح ہے۔ دوسری روایت حضرت عبدالرحمن (رض) بن عوف سے ہے کہ عرب کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے پھر وہ بیمار ہو کر واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے ایک گروہ انہیں منافق قرار دیتا تھا اور دوسرا مسلمان سمجھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو رائیں ہوگئی تھیں لہذا اس آیت میں ان منافقین کے مسلمان قرار پانے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کی بقہ تمام تفا سیر پر تر جیح دی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اہل افک کے بارے میں نازل ہوتی ہے (ابن کثیر، کبیر) آیت میں فئنین منصوب علی الحال ہے اور استفہام انکاری ہے۔ ( شوکانی )