سورة النسآء - آیت 17

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یہا علی اللہ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے ذمہ لے لیا ہے رونہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) بحھالہ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کر بھی لیتے میں تو من قریب یعنی جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ یہاں بجھالتہ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے یعنی ہر گناہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور من قریب کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ع موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہوجاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) توبہ کے شرائط کے لیے دیکھئے سورت مریم آیت 8۔