سورة البقرة - آیت 243

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اور باوجودیکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر (دلوں کی بے طاقتی کا یہ حالت تھا کہ) موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔ اللہ کا حکم ہوا (تم موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو تو دیکھو اب تمہارے لیے موت ہی ہے (یعنی ان کی بزدلی کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگئے) پھر (ایسا ہوا کہ) اللہ نے انہیں زندہ کردیا (یعنی عزم و ثبات کی ایسی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ دشمنوں کے مقابلہ پر آمادہ ہوگئے اور فتح مند ہوئے) یقینا اللہ انسان کے لیے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) اکثر آدمی ایسے ہیں جو ناشکری کرنے والے ہیں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

۔ ف 5 یہ لوگ کون تھے اور کہاں سے نکلے تھے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے البتہ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اسرائلی تھے۔ جہاد میں قتل کے خوف یا طاعون سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے بھاگے جن ایک مقام پر پہنچے تو اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے اللہ تعالیٰ کے ایک نبی وہاں سے گزر ہوا اس نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کیا۔ (قرطبی۔ رازی) یو آیت کے شرو میں لفظ الم تر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قصہ نزول آیت کے وقت عام طور پر مشہور ومعروف تھا۔ (فتح القدیر) یہ قصہ قیامت یے روز معاد جسمانی کی قطعی دلیل ہے اور جہاں ذکر کرنے سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ صحیحین میں حضرت عبدالر رحمن بن عوف سے روایت ہے کہ جس مقا پر وبا پھوٹ پڑے وہاں سے فراف کرنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور اس مقام پر جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر )