سورة البقرة - آیت 164

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہاز میں جو انسان کی کار براریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے، اور برسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے (مختلف رخ) پھرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں (اللہ کی ہستی و یگانگی اور اس کے قوانین رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الا واحد ہونے کا بیان تھا اس آیت میں وحدنیت پر دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان امور ثمانیہ کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کے ثبوت میں متفرق طور پر جا بجا ذکر کیا ہے مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ ان امو رر تکو ینیہ سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ ان کی خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونا بنا دے اگر اس نے ایسا کردیا تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ صفا کے سونا بن جانے کا کیسے مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں صرف عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ (ابن کثیر )