سورة التوبہ - آیت 97

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7۔ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ منورہ سے دور دیہاتی اور صحرائی علاقوں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ دراصل اسلام کی دعوت کو سمجھ کر سچے دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے بلکہ محض اسلام کی بڑتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر مسلمان ہوگئے تھے۔ انہیں شہر مدینہ منورہ میں آنے، مسلمانوں سے میل جول رکھنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا بہت کم موقع ملا تھا اس لیے یہ نرے گنوار اور اجڈ قسم کے لوگ تھے جن کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہوئی تھی اور نہ انہیں علم کی ہوا لگی تھی اس لیے ان میں جو منافق تھے ان کا نفاق بھی اہل مدینہ کے نفاق سے سخت تھا۔ امام رازی لکھتے ہیں بدوی اور شہری لوگوں کی طبیعتوں میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو ایک باغ کے میوے اور پہاڑی درخت کے میوے میں محسوس ہوتا ہے۔ (کبیر) شاہ صاحبت لکھتے ہیں بدویوں کی سرشت میں بے حکمی، مفاد پرستی اور جہالت رچی بسی ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے نہ ان پر زیادہ ذمہ داری ڈالی اور نہ ان کو درجات کی بلندی عطا ہوئی (موضح)