سورة الانفال - آیت 46

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور (جیسی کچھ بھی مشکلیں مصیبتیں پیش آئیں تم) صبر کرو، اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یعنی صرف اس پر بھروسہ کرو اسی سے مددطلب کرو کیونکہ فتح ونصرت کا انحصار ظاہر اسباب پر نہیں بلکہ دل کی استقامت اللہ کی یاد اور اس کی حکم بر داری پر ہے۔ اسی طالوت کے ساتھیوں نے دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت یہ دعا کی تھی، ربنا افرغ علینا صبرا وثبت قادامنا وانصر نا علی القوم الکافرین اے ہمارے رب ہمیں صبر کی توفی ق دے ہمارے قدم جما دے اور ان کافروں پر ہمیں فتح نصیب کر۔ (بقرہ :250) حضرت سہیل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو وقت دعارد نہیں ہوگی ایک اذان کے وقت دوسرے دشمن سے لڑائی کے وقت ( الحاکم بسند) صحیح) یہ اں ثبات سے مقصود انہتایہ بے جگری سے لڑ نا ہے۔ لہذا یہ آیت الا متح فالقتال او متحیزا الی فئتہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تحرف اور تحیز ہی ظبات کے حصول کا ماجب بن جاتا ہے ،( کبیر ) ف 3 ہوجاتی ہے گی یعنی اقبال کے بعد اد بار نظر اوے گا۔ ( مو ضح) نیز ی کہ تمہارے درمیان پھوٹ دیکھ کر دشمنوں پر سے تمہارا رعب اٹھ جائے گا اور وہ تم غالب پانے کے لیے اپنے اند جرات محسوس کرنے لگیں گے، جا لر یح کنا یتد عن الدولتہ و النصر ۃ کما فسر ھا مجاھدہ ( روح) یہ صحابہ (رض) کرام کے اتحاد اور صبر کا نتیجہ تھا کہ تیس سال کے اند ر ہی مسلمانوں کی سب پر غلبہ حاصل ہوگیا اور مملکت اسلامی کے حدود مشرق و مغرب میں حیرت انگیز طریقے سے پھیل گئے۔ ( ابن کثیر )