سورة البقرة - آیت 27

الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو (١) توڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (٢)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ قرآن مجید کی ابتدا اور البقرۃ کے آغاز میں ابتدائی‘ بنیادی اور مرکزی باتوں کا بیان ہوا ہے یہاں اس عہد کا ذکر ہورہا ہے جس کی پاسداری کا حکم ہے جو روز اول ہی سے بنی نوع انسان سے لیا گیا تھا۔ تمام مفسرین نے اللہ کے عہد سے مراد وہی عہد لیا ہے جس کا تفصیلی تذکرہ سورۃ الاعراف 172میں آیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی پوری اولاد سے عہد لیا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ سب نے عہد کیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اسی عہد کی یاد اور وفا داری کے لیے انبیاء عظام مبعوث فرمائے گئے۔ جنہوں نے ہر انداز سے تجدید عہد اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوششیں فرمائیں۔ لیکن ہر دور کی اکثریت نے اس عہد کی پاسداری کرنے کی بجائے کفر و شرک اور نافرمانی وسرکشی کو اختیار کیا۔ حالانکہ یہ عہد انسان کی جبلت میں اس حد تک رچا بسا ہے کہ انتہا درجہ کے مشرک، کافر کو بھی شرک اور اس کے کفر کی نشاندہی کی جائے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور اس سے انکار کرتا ہے کیونکہ شرک وکفر فطرت کے خلاف ہے اور توحید فطرت کی آواز ہے۔ قرآن مجید نے عہد کے ساتھ میثاق کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس کا معنٰی ہے انتہائی پختہ عہد، لہٰذا توحید سے بڑھ کر پختہ عہد کوئی نہیں ہو سکتا۔ فطرت کے خلاف کرنا، رشتہ داریوں کو توڑنا، باہمی محبتوں کو قطع کرنا اور عہد شکنی کرنا۔ یہ امور فساد کی جڑ ہیں اور دنیا میں انہی کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ (عَنْ أَنَسٍ {رض}قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ {}إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک) ” حضرت انس {رض}فرماتے ہیں ہمیں جب بھی رسول اللہ {ﷺ}خطبہ ارشاد فرماتے تو کہتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ {رض}قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ {رض}بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم {ﷺ}فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے ” اللہ“ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے ” اللہ“ اسے کاٹ ڈالے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے عہد اور رشتہ داریوں کو توڑنے والے فسادی ہیں۔ 2۔ فساد کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ :121) 2۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران :85) 3۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ:19) 4۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر :65) 5۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل :109) فسادی لوگ : 1۔ فساد کرنے سے رک جاؤ۔ (الاعراف :85) 2۔ حق کو خواہشات کے مطابق کرنا فساد کرنے کے مترادف ہے۔ (المومنون :71) 3۔ منافق فسادی ہوتے ہیں۔ (البقرۃ:11) 4۔ خدا کے نافرمان فسادی ہیں۔ (الروم :41) 5۔ یاجوج و ماجوج فسادی ہیں۔ (الکہف :94) 6۔ فرعون فساد کرنے والا تھا۔ (یونس :91) 7۔ یہودی فساد پھیلانے والے ہیں۔ (المائدۃ:64) 8۔ بچوں کا قتل فساد ہے۔ (القصص :4) 9۔ فسادیوں کی سزا۔ (المائدۃ:33)