سورة النسآء - آیت 65

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تمہارے رب کی قسم ! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلاف میں تمہیں حکم نہ مان لیں۔ پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور اسے دل و جان سے تسلیم کرلیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

74۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لیے کہ آپ کا فیصلہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دل میں اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر وباطن اسے تسلیم کرلے۔ اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں بھی شبہ باقی نہ رہے اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام بخاری نے عروہ بن زبیر (رض) سے روایت کی ہے زبیر (رض) کا حرہ کے پانی کے بہاؤ کے بارے میں ایک انصاری سے اختلاف ہوگیا اور معاملہ رسول اللہ تک پہنچا، تو آپ نے کہا کہ اے زبیر ! زمین سیراب ہوجانے کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو، تو انصاری نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ایسا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ اس پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور کہا کہ اے زبیر ! زمین کو سیراب کرو اور پانی کو روک رکھو، یہاں تک کہ پانی تمہاری زمین کی دیوار سے لگ جائے، اس کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو۔ جب انصاری نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ناراض کردیا تو آپ نے زبیر کو صراحت کے ساتھ ان کا پورا حق دیا، حالانکہ پہلے آپ نے دونوں کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں انصاری کی رعایت کی گئی تھی۔ بعد میں زبیر کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں یہ آیتیں اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کلبی کی تفسیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا تھا، یہودی نے کہا کہ ہم لوگ محمد کے پاس چلیں، اور منافق نے کہا کہ کعب بن اشرف کے پاس چلیں۔ پھر پورا قصہ بیان کیا، جس میں آتا ہے کہ عمر (رض) نے منافق کو قتل کردیا اور یہی ان آیتوں کے نزول کا سبب تھا اور عمر کا لقب فاروق پڑ گیا اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن مجاہد نے اس کی تائید کی ہے، اور طبری نے اسے ترجیح دی ہے، تاکہ ان تمام کا تعلق ایک ہی سبب سے ہوجائے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ممکن ہے زبیر اور ان کے پڑوسی کا قضیہ بھی انہی دنوں پیش آیا ہو نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی احادیث مبارکہ کی اہمیت کو ذہن نشیں کرنے کے لیے بعض علمائے اسلام کے اقوال ملاحظہ کرلیں، 1۔ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی مؤمن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائی جائیں الف۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے فیصلہ سے راضی ہونا ب۔ دل میں اس بات کا یقین رکھنا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا فیصلہ ہی برحق ہے ج۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ذرا سا بھی تردد سے کام نہ لینا اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ہر صحیح حدیث اس آیت کے ضمن میں آتی ہے، اور ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ہر صحیح حدیث کو قبول کرے، اور مذہبی تعصب کی وجہ سے کسی حدیث کو رد نہ کرے، ورنہ اس آیت میں مذکور وعید اس کو بھی شامل ہوگی۔ 2۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ تم بہتوں کو دیکھو گے کہ جب کوئی حدیث اس امام کے قول کے موافق ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، اور اس کے راوی کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ دلیل راوی کی روایت ہے، اس کا عمل نہیں اور جب راوی کا عمل اس کے امام کے قول کے موافق ہوتا ہے اور حدیث اس کے مخالف ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ راوی نے اپنی روایت کی مخالفت اس لیے کی ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہے، ورنہ اس کی یہ مخالفت اس کی عدالت کو ساقط کردیتی، اس طرح وہ لوگ اپنے کلام میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی باب میں بدترین تناقض کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان یہ ہے کہ صحیح حدیث آجانے کے بعد امت کے لیے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 3۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن، سنت اور اجماع کے ذریعہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اللہ نے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض کیا ہے، اوامر و نواہی میں اللہ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے علاوہ اس امت پر کسی کی اطاعت کو فرض نہیں کیا ہے۔ اسی لیے ابوبکر صدیق (رض) (جو نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعد امت کے سب سے افضل انسان تھے) کہا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں، تم لوگ میری اطاعت کرو، اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگ میری اطاعت نہ کرو، تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، اسی لیے بہت سے ائمہ کرام نے کہا ہے کہ ہر آدمی کی کوئی بات لی جائے گی اور کوئی چھوڑ دی جائے گی، سوائے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ، اور یہی وجہ تھی کہ فقہی مذاہب کے چاروں مشہور اماموں نے لوگوں کو ہر بات میں اپنی تقلید کرنے سے منع فرمایا تھا۔