سورة الفتح - آیت 2

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے اور آپ پر اپنی نعمت کی تکمیل کرے اور آپ کو سیدھے راستے کی راہنمائی کرے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(2) صلح کی ظاہری شرطوں کو قبول کرنے کی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) کو بہت زیادہ صبر و ضبط سے کام لینا پڑا، لیکن اس کے نتائج اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت ہی مفید ثابت ہوئے، عربوں کی کثیر تعداد نے اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ پر ایمان لانے والوں میں خوب اضافہ ہوا۔ یہ تمام عظیم نتائج نبی کریم (ﷺ) کے صبر و ضبط کی وجہ سے حاصل ہوئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے : 1۔ آپ (ﷺ) کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے، یعنی دعوتی اور جہادی زندگی میں ” ترک اولیٰ“ کی جو کو تاہیاں سر زد ہوئیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے درگذر فرمادیا، مفسرین لکھتے ہیں کہ ” ترک اولیٰ“ کو آپ (ﷺ) کے لئے گناہ کہا گیا ہے، دوسروں کے لئے یہ چیز گناہ نہیں ہے۔ 2۔ آپ (ﷺ) پر اپنی نعمت تمام کردی، بایں طور کہ اس نے آپ کے دین (دین اسلام) کو عزت دی، آپ کے دشمنوں کو مغلوب بنایا اور اسلامی حکومت کے علاقے دن بدن پھیلتے چلے گئے۔ 3۔ آپ (ﷺ) کی رہنمائی اس دین مبین کی طرف کی جس میں کوئی کجی نہیں ہے۔ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ (ﷺ) صلح حدیبیہ سے پہلے بھی راہ مستقیم پر گامزن تھے، لیکن اس کے بعد راہ حق کے نشانات زیادہ واضح ہوگئے۔