سورة آل عمران - آیت 152

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے کافروں کو کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ تم نے جب پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی اس کے بعد اس نے تمہاری پسند کی چیز تمہیں دکھا دی تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض آخرت۔ پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرمایا اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

104۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ واقعہ احد کے موقع سے بھی اللہ کا وعدہ سچا تھا کہ وہ اپنے مؤمن بندوں کی مدد کرتا ہے، اور کافروں پر انہیں غلبہ دیتا ہے، چنانچہ اس نے تمہیں تمہارے دشمنوں پر غلبہ دیا تھا، اور اگر تم اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہتے اور رسول کے حکم کی اتباع کرتے، تو اللہ کی نصرت آخرت تک تمہارے لیے باقی رہتی، لیکن جب تم نے روگردانی کی اور اپنے مرکز کو چھوڑ دیا، تو بطور عقاب اللہ کی نصرت تم سے چھن گئی، اور پاسا پلٹ گیا، (اس کی تفصیل آیت 121 میں گذر چکی ہے، وہاں دیکھ لیجیے) ” بعض نے دنیا کا ارادہ کیا“ یعنی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعین کیے ہوئے مرکز کو چھوڑ دیا، اور’’ بعض نے آخرت کا ارادہ کیا“ یعنی شوق شہادت میں جنگ کرتے رہے، جیسا کہ انس بن نضر نے کیا کہ دشمنوں سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، پھر اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کا پیچھا کرنے سے روک دیا، تاکہ اس واقعہ کو مسلمانوں لیے امتحان و آزمائش کا سبب بنا دے، اور تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں، اس کے بعد اللہ نے خبر دی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردیا۔