سورة الأحزاب - آیت 6

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلاشبہ نبی اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدّم ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں، مگر ” اللہ“ کی کتاب کے مطابق عام مومنین ومہاجرین کی نسبت ان کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔ یہ حکم کتاب اللہ میں لکھا ہوا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(5) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (ﷺ) کی عظمت اور امہات المومنین کی قدر و منزلت بیان کی گئی ہے مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام دینی اور ددنیاوی امور میں آپ (ﷺ) کو اپنی ذات پر مقدم رکھیں اپنے آپ سے زیادہ ان سے محبت کریں آپ کا حکم ان کی ذات پر ان کے اپنے حکموں سے زیادہ نافذ العمل ہو، آپ کے حقوق کو اپنے حقوق پر ترجیح دیں، اپنی ذات سے زیادہ آپ سے محبت کریں اور ان کی خاطر اپنی جانیں فدا کردیں اور ان کے ہر حکم کی اتباع کریں، کیونکہ دنیا و آخرت کی تمام نیک بختیوں کا یہی واحد سرچشمہ ہے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا :” میں ہر مومن کا دنیا و آخرت میں تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہوں“ ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر تم لوگ چاہو تو یہ آیت پڑھو : ﴿النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾الحدیث صحیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنی جان و مال، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے نہ محبت کرے۔ “ آیت کے دوسرے حصے میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) کی بیویاں تمام مسلمانوں کے لئے ماں کا مقام رکھتی ہیں ان کے لئے ان سے شادی کرنا حرام ہے اور ان کا احترام واجب ہے، ان کے ساتھ خلوت اور انہیں نظر اٹھا کر دیکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ اہل قرابت ایک دوسرے کی میراث کے مہاجرین اور دیگر مومنین سے زیادہ حقدار ہیں شوکانی لکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگ ہجرت، آپس کے بھائی چارہ اور معاہدوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور وراثت صرف قرابت داروں کے ساتھ مختص ہوگئی اور غیر قرابت دار مومنوں اور مہاجروں کے لئے صدقہ، ہدیہ اور وصیت جیسی صورتیں باقی رہ گئیں، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ احکام لوح محفوظ میں پہلے سے نوشتہ ہیں۔