سورة النور - آیت 62

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” حقیقی مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے لیے رسول کے پاس ہوں تو آپ سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ اے نبی جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں۔ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے اجازت مانگیں توجسیچاہیں آپ جازت دیں اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کریں، اللہ یقیناً غفورورحیم ہے۔“ (٦٢)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

37۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی کریم (ﷺ) کی مجلسوں میں جانے اور وہاں سے رخصت ہونے کا ادب سکھلایا ہے کہ وہ مومنین جو اللہ اور رسول پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں جب وہ نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ کسی اہم موقع پر ہوتے ہیں جیسے کسی جنگی مسئلہ میں رائے مشورہ، اسلام اور مسلمانوں کا دفاع یا کوئی اور اہم مسئلہ جس پر غور و خوض کرنے کے لیے تمام صحابہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے تو وہ آپ کی اجازت کے بغیر مجلس سے اٹھ کر نہیں چلے جاتے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ اسی لیے اس کے بعد اللہ نے صراحت کردی کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقین آپ سے اجازت نہیں لیتے، یعنی اجازت لے کر جانا صدق ایمان کی دلیل ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ اگر آپ کے صحابہ اپنی بعض ضرورتوں کے لیے اجازت مانگیں، تو حالات کے مطابق آپ جنہیں چاہیں اجازت دے دیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ انہیں اجازت نہ دی جائے تو اجازت نہ دیجیے اور اللہ اور رسول پر ایمان کا تقاضا ہے کہ صحابہ اس حکم کو برضائے نفس قبول کرلیں، اور رسول اللہ (ﷺ) کے حکم کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں، اور﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ﴾ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صحابہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ آپ کی مجلس سے جانے کی نہ سوچیں اور اجازت نہ لیں۔ بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عروہ اور محمد بن کعب القرظی سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت خندق کھودنے کے موقع سے نازل ہوئی تھی، جب منافقین رسول اللہ (ﷺ) سے بغیر اجازت لیے چپکے سے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے اور مخلص مسلمان آپ سے اجازت لے کر جاتے اور ضرورت پوری ہوتے ہی واپس آجاتے تھے۔ زجاج کہتے ہیں کہ ہر دور میں مسلمانوں کا اپنے اماموں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے کہ ان کی مخالفت نہ کریں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی اہم مجلسوں سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر غائب نہ ہوجائیں، حالات کے تقاضے کے مطابق امام اگر چاہے گا تو اجازت دے گا ورنہ جانے سے روک دے گا۔