سورة الأنبياء - آیت 90

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے صحت مند کردیا۔ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے والے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارنے والے تھے۔“ (٩٠)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(٣١) مذکور بالا انبیائے کرام کا فردا فردا ذکر کرنے کے بعد اب ان تمام کی مجموعی صفت یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ حضرات بھلائی کے کاموں کی طرف سبقت کرتے تھے اور امید و خوف دونوں حالتوں میں اپنے رب کو پکارتے تھے، اور ہر حال میں اس کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے تھے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ تینوں صفات زکریا، ان کی بیوی اور ان کے بیٹے یحی کی بیان کی گئی ہیں۔ ترمذی نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو ختم کرتے وقت دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ پر پھیر لیتے، اور ترمذی نے ہی انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جب اللہ سے مانگو تو اپنی ہتھیلیوں کے ذریعہ مانگو، ان کی پشت کے ذریعہ نہ مانگو اور انہیں اپنے چہرے پر پھیر لو، اور ابن عباس سے مروی ہے کہ دونوں ہاتھوں کو سینہ تک اٹھانا دعا ہے، اور انہیں سر سے اوپر اٹھانا گڑ گڑانا ہے۔