سورة النحل - آیت 43

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور نہیں بھیجے ہم نے آپ سے پہلے مگر آدمی نبی جن کی طرف ہم نے وحی کی۔ اگر تم نہیں جانتے تواہل ذکر سے پوچھ لو۔“ (٤٣) ”

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(26) مشرکین مکہ کو تعجب ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان (مرد) کو کیسے اپنا نبی بنا دیا؟ ان کے اسی شبہ کی تردید کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء ہم نے بھیجے سبھی انسان مرد تھے، ایک بھی نبی فرشتہ نہیں تھا، اور مشرکین مکہ سے کہا کہ اس بات کی تصدیق کے لیے یہود و نصاری سے پوچھ لو جنہیں تم بھی اہل علم و دانش سمجھتے ہو، وہ بھی تمہیں اپنی کتابوں کے حوالے سے یہی بتائیں گے کہ انبیائے کرام ہمیشہ انسان مرد ہوا کیے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی صداقت کے واضح دلائل اور انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابیں دے کر بھیجتا رہا ہے۔ تقلید شخصی کے قائلین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے جن کے پاس علم نہ ہو انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت ایک خاص موضوع کے بارے میں سوال کرنے سے متعلق ہے، جس کا تقلید شخصی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، ابن جریر، بغوی اور اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے۔ سیوطی نے اپنی تفسیر (در منثور) میں اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ آیت کریمہ سے مراد عام سوال ہے تو اہل ذکر سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کلمہ ذکر سے مراد صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے، یعنی ان لوگوں سے پوچھا جائے جو قرآن و سنت والے ہوں، اور جن سے پوچھا جائے وہ جواب میں اللہ کا قول یا رسول اللہ (ﷺ) کا قول بیان کردیں اور سوال کرنے والا اس پر عمل کرے۔ ایسی صورت میں یہ آیت مقلدین کے خلاف حجت بن گئی، اس لیے کہ ان کا دعوی یہ ہے کہ لوگوں کے اقوال بغیر دلیل مانگے قبول کرلیے جائیں، جبکہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے سوال کرنے والوں کو قرآن کی آیت یا رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث بتا دیں، اور اگر کوئی مقلد اپنے امام کا مذہب نہیں بلکہ قرآن و سنت کا سوال کرتا ہے تو وہ مقلد نہیں رہتا، بلکہ وہ قرآن و سنت کا متبع ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت تقلید شخصی کی نہیں بلکہ اتباع قرآن و سنت کی دلیل ہے اور تقلید شخصی کے قائلین کے خلاف دلیل و حجت ہے۔ باللہ التوفیق۔