سورة الاعراف - آیت 145

وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں ہر چیز کے بارے میں نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی سو انہیں مضبوطی کے ساتھ پکڑ اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کی بہترین باتوں کو پکڑے رکھیں عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھردکھاؤں گا۔“ (١٤٥)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(76) یہ تورات کی تختیاں تھیں جن میں بنی اسرائیل کی دینی اور دنیوی رہنمائی وبھلائی کی ہر بات نوشتہ تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص آیت (43)، میں فرمایا ہے : اور ہم نے گذشتہ قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب "تورات"دی جو لوگوں کے لیے نصیحتوں کا مجموعہ ہدایت کا ذریعہ اور اللہ کی رحمت تھی، ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ تختیاں موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات سے پہلے دی گئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان تختیوں کو وہ اس عزم کے ساتھ لیں کہ اس میں موجود احکام پر عمل پیراہوں اور نواہی سے اجتناب کریں، رخصت کے بجائے عزمیت فوافل کے ساتھ لیں کہ اس میں موجود احکام پر عمل پیراہوں اور نواہی سے اجتناب کریں، رخصت کے بجائے عزیمت اور نوافل سے پہلے فرائض کا اہتمام کریں، اور غیروں کی اذیت پر صبر کریں۔ (77) یعنی جو لوگ میرے او امر کو ٹھکرائیں گے اور میری بندگی سے اعراض کریں گے، تم عنقریب ہی دیکھ لو گے کہ ہلاکت وبر بادی ان کا انجام ہوگا ؛، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ "دارالفاسقین"سے مراد سرزمین شام وبیت المقدس ہے، وہاں کے رہنے والے عمالقہ اللہ کے نافرمان ہوگئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا کہ عنقریب ہی وہ لوگ ان علاقوں پر قابض ہوجا ءئیں گے چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے عمالقہ سے جنگ کی اور ان علاقوں پر قابض ہوگئے، علمائےتفسیر لکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ میں بنی اسرائیل کے لیے ایک قسم تنبیہ ہے کہ اگر وہ تورات میں موجود احکام وشرائع پر عمل پیرا نہیں رہیں گے اور اسے پس پشت ڈال دیں گے تو وہ بھی فاسق ہوجائیں گے، اور دنیا میں ذلیل خوار ہوں گے اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور تفسیر کے قاعدہ کے مطابق یہ حکم ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جو کسی بھی دور میں اللہ کے احکام وشرائع سے روگردانی کریں گے۔