سورة الانعام - آیت 146

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جو لوگ یہودی بن گئے ان پر ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور گائیوں اور بکریوں میں سے ہم نے ان پر دونوں کی چربی حرام کردی سوائے اس کے جو ان کی پشتیں یا انتڑیاں اٹھائے ہوں یا جوہڈی کے ساتھ ملی ہو۔ یہ ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی سزادی تھی یقیناً ہم سچے ہیں۔ (١٤٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥٩] بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء:۔ حیوانی غذاؤں میں سے بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء کا بیان سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ اور سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٦٠ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ان سب آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہی چیزیں، جو شریعت محمدی میں حرام ہیں بنی اسرائیل پر بھی حرام تھیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ ان بنیادی چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ مگر وہ چیزیں جنہیں اسرائیل (سیدنا یعقوب علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اور تورات کے زمانہ نزول تک یہی صورت حال تھی۔ مگر بنی اسرائیل ان چیزوں کو بھی حرام ہی سمجھتے رہے جنہیں سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی بیماری یا طبیعت کی کراہت کی بنا پر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ تورات میں ان کی حرمت کا حکم موجود نہ تھا اور نہ ہی قرآن کے زمانہ نزول تک ایسا حکم تورات میں درج تھا۔ کیونکہ قرآن نے چیلنج کیا تھا کہ اگر تورات میں ان اشیاء کی حرمت کا ذکر موجود ہے تو تورات لا کر دکھا دو۔ لیکن یہود نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور کی متداول تورات میں اضافہ ہے جو زمانہ مابعد میں کسی وقت کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چار بنیادی چیزوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی یہود پر حرام کی گئیں یعنی ہر ناخن والا جانور یعنی جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ یا ہر کھر والا جانور جیسے گورخر وغیرہ۔ اور گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کی گئی تھی۔ اور یہ چیزیں گو بنیادی طور پر حرام نہ تھیں تاہم ان کی سرکشی کی پاداش میں حرام کی گئیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشیاء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد کسی وقت حرام کی گئی تھیں۔ اور زمانہ نزول قرآن تک تو تورات میں ان چیزوں کی حرمت کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں ایسی حرام چیزیں بھی تورات میں شامل کردی گئیں۔