سورة الانعام - آیت 92

وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے نازل کی بڑی برکت والی ہے اس کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے ہے اور تاکہ آپ بستیوں کے مرکز اور اس کے اردگرد لوگوں کو ڈرائیں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ (٩٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٣۔ ب] قرآن بابرکت کتاب کیسے؟ یہ قرآن کریم ہی کے بابرکت ہونے کا نتیجہ تھا کہ اس نے عرب جیسی جاہل قوم کو، جو قبائلی عصبیت کی وجہ سے ہر وقت برسرپیکار اور لڑتی مرتی رہتی تھی۔ ایک مہذب قوم بنا کر چند ہی سالوں میں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ان کے اخلاق و عادات اس قدر اعلیٰ بن گئے کہ یہی جاہل، وحشی اور اجڈ قوم تمام اقوام عالم کی پیشوا بن گئی۔ بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کیا اور دنیا کے ایک کثیر حصہ پر قابض ہو کر ان میں علوم و تہذیب پھیلانے کا سبب بن گئی۔ قرآن کی تعلیم نے انہیں ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر عزت کے بلند مقامات پر پہنچا دیا۔ [٩٤] قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے پر چار دلائل :۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ایک بشر پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں سب لوگ بشر تسلیم کرتے تھے پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کتاب قرآن فی الواقع اللہ کا کلام ہے تو اس پر چار دلائل پیش کئے گئے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب اتنی خیر و برکت والی ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو اور شعبے کے لیے تمہیں ہدایت فراہم کرتی ہے جو عقائد صحیحہ اور اخلاق فاضلہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں۔ اور اس کے منزل من اللہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جو سابقہ کتب سماویہ کی ہیں۔ کوئی نئی بات پیش نہیں کرتی بلکہ انہی چیزوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو پہلی کتب میں پیش کی گئی تھیں۔ تیسرے یہ کہ اس کتاب کا مقصد غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنا اور انہیں ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ آپ اس کام کا آغاز اس مرکزی شہر مکہ اور اس کے پاس کی بستیوں سے کیجئے اور چوتھی بات جو بطور نتیجہ بتائی گئی یہ ہے کہ اس کتاب سے ہدایت صرف وہ لوگ پائیں گے جو اپنی خواہشات نفس کے غلام نہ ہوں بلکہ اللہ اور روز آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہوں اور اس کی واضح علامت کے طور پر نماز کی باقاعدگی سے محافظت کرتے ہوں۔ اور یہ سب ایسی باتیں ہیں جو کسی انسان کی تصنیف شدہ کتاب میں نہیں ہو سکتیں۔