سورة القيامة - آیت 2

وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] نفس انسانی کی تین حالتیں :۔ نفس انسانی کی تین مختلف قسمیں یا حالتیں ہیں اور یہ سب قرآن کی مختلف آیات سے ثابت ہیں۔ نفس کی ابتدائی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ عموماً بری باتوں کا ہی انسان کو حکم دیتا ہے۔ اس کا مطمح نظر صرف ذاتی مفادات کا حصول، اپنی بڑائی اور اپنی کبریائی کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ دوسروں کے حقوق و مفادات کی پروا کیے بغیر خواہشات پیدا کرتا اور ان کو پورا کرنے کے لیے انسان کو اکساتا رہتا ہے۔ نفس کی ایسی حالت کو نفس امارۃ کہا گیا ہے (١٢: ٥٣) پھر جب اس نفس کی کسی حد تک اصلاح ہوجاتی ہے تو اسے کوئی برا کام کرلینے کے بعد ایک طرح کی ندامت اور خفت کا احساس ہونے لگتا ہے تو نفس کی اس حالت کو ہی اس آیت میں نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا نفس کہا گیا ہے اور اسے ہی ہم آج کی زبان میں ضمیر کہتے ہیں۔ پھر جب نفس کی پوری طرح اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کا فرمانبردار بن جاتا ہے تو اسے برے کاموں سے نفرت اور چڑ سی ہوجاتی ہے۔ اور بھلائی کے کاموں میں ہی اس کا دل لگتا ہے۔ انہی میں وہ اپنی خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ایسے نفس کو نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (٨٩: ٢٧) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی۔ کیونکہ انسان کے نفس میں برے اور بھلے کی پوری تمیز موجود ہے۔ پھر اسی تمیز کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے۔ برے کام کا نتیجہ برا اور بھلے کام کا نتیجہ بھلا ہونا چاہیے۔ اور یہی قیامت اور آخرت کا اصل مقصد ہے۔ بالفاظ دیگر تمہارا نفس لوامہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ قیامت ضرور واقع ہونی چاہیے۔