سورة القلم - آیت 44

فَذَرْنِي وَمَن يُكَذِّبُ بِهَٰذَا الْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پس اے نبی تم اس بات کو جھٹلانے والوں کو مجھ پر چھوڑ دو، ہم ایسے طریقہ سے ان کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو گی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠] ﴿سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ ﴾استدراج کے لغوی معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک تدریج، دوسرے آہستگی، یعنی یہ قریشی سردار جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ وہ خوشحال اور آسودہ ہیں۔ لہٰذا ان کا پروردگار ان پر مہربان ہے۔ حالانکہ اللہ انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت اور تباہی کی طرف لیے جارہا ہے۔ اور جن چیزوں کو وہ اللہ کے انعامات سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ان کی ہلاکت کا سامان ہے۔