سورة المجادلة - آیت 14

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے ان کو دوست بنایا ہے جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے؟ وہ نہ تمہارے ہیں نہ ان کے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] منافقوں کی یہود سے ملی بھگت :۔''ان لوگوں سے'' سے مراد مدینہ کے منافق ہیں اور مغضوب علیہ قوم سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں۔ منافقوں کی اصل دوستی اور ہمدردی یہودیوں سے تھی۔ کیونکہ اندر سے منافق بھی مسلمانوں کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی۔ اسی اسلام دشمنی کی مشترک قدر نے ان دونوں کو دوستی کے رشتہ میں منسلک کردیا تھا۔ ان دونوں میں بدتر حالت منافقوں کی تھی جن کے زبانی دعویٰ ایمان پر مسلمانوں کا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے دعویٰ کی وجہ سے مسلمانوں سے کئی قسم کے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں میں انہیں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ مگر ان کی کرتوتیں چونکہ ان کے دعویٰ اور قسموں کی تکذیب کردیتی تھیں۔ اس لیے ان پر نہ مسلمان اعتماد کرتے تھے اور نہ یہودی۔ ان کی حالت دھوبی کے کتے جیسی ہوگئی تھی جو نہ گھر کا شمار ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ [١٩] یہودیوں کے سامنے یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے محض اُلّو بنا رکھا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے وہ یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور ان کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں۔