سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! تم کفار کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ جب وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے تاکہ اس بات کو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی حسرت بنا دے۔ اللہ تعالیٰ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل دیکھ رہا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤٩] یہاں کافروں سے مراد وہ منافق ہیں جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ بظاہر ایمان لانے والے اور دلوں میں کفر چھپائے ہوئے تھے۔ [١٥٠]موت کے وقت خالد بن ولید کےحسرت بھرے کلمات:۔ ایسا عقیدہ رکھنا یا ایسی بات زبان سے نکالنا عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے جو ایمان بالغیب کا چھٹا جزو ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ لوگ کافر ہوئے۔ کیونکہ موت کا وقت بھی معین ہے اور جگہ بھی۔ کچھ بھی ہو موت اپنے وقت پر آئے گی اور آ کے رہے گی۔ اس کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے اسی طرح جہاں مرنا مقدر ہے وہاں خود ہی انسان کسی حیلے بہانے جاپہنچتا ہے اور جب موت کا وقت نہ آیا ہو، تو انسان خواہ غزوات میں پوری زندگی گزار دے۔ اسے موت نہیں آتی۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہوں نے زندگی بھر جنگیں لڑیں اور جن کے جسم کا کوئی حصہ بھی تلوار یا تیر کے نشان سے بچا ہوا نہ تھا۔ انہیں موت آئی تو گھر پر آئی۔ چنانچہ انہوں نے خود اپنی وفات کے وقت یہ الفاظ کہے تھے کہ میرے بدن پر ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہیں جو تلوار یا نیزہ کے زخم سے خالی ہو مگر میں آج اونٹ کی طرح (گھر پر) مر رہا ہوں۔ [١٥١] ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر یا جہاد پر نہ جاتا تو شاید بچ رہتا۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مار سکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ زندہ رکھنا اور مارنا سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے علم میں ہے۔