سورة الدخان - آیت 39

مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان کو ہم نے بامقصد پیدا کیا ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٩] دوسرا عقلی جواب : یہ کائنات بیکار پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ کفار مکہ کی اس کٹ حجتی کا عقلی جواب ہے۔ یعنی جو شخص روز آخرت اور اپنے اعمال کی جزا و سزا کا منکر ہے وہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یہ کارخانہ کائنات بس ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ اور اس دنیا میں کوئی شخص جو چاہتا ہے کرتا رہے۔ وہ مر کر مٹی ہوجائے گا اور اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اور خالق کائنات نے بس یونہی ایک شغل اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ اس کائنات کی ایک ایک چیز میں باہمی ربط، نظم و نسق، انضباط باقاعدگی اور ہر چیز کا کثیر المقاصد اور اسی نسبت سے افادیت سے معمور ہونا اس بات پر کھلی شہادت ہے کہ اس کائنات کا خالق انتہا درجہ کی دانا اور مدبر ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ اور کوئی دانا بے کار اور عبث کام نہیں کیا کرتا۔ لامحالہ یہ کائنات کسی نتیجہ پر منتج ہونی چاہئے۔ اور اسی نتیجہ کا نام دوسرا جہان یا روز آخرت ہے۔ قرآن میں بہت سے دوسرے مقامات پر روز آخرت پر ایک دوسری عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جو شخص روز آخرت کا منکر ہے وہ دراصل سمجھتا ہے کہ نیک اور بد ( یا نیکی یا بدی) سب برابر ہیں۔ دونوں کا انجام یہی ہے مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ حالانکہ اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ نیک اور بد ایک جیسے ہوتے ہیں یا ان دونوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے گویا روز آخرت سے انکار اللہ تعالیٰ کی صفات حکمت اور عدل دونوں کی نفی کردیتا ہے۔