سورة الشورى - آیت 27

وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اگر اللہ اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرتے مگر وہ جتنا چاہتا ہے حساب کے مطابق نازل کرتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے۔ اور ان کو دیکھنے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں :۔ پنجابی زبان کی ایک مختصر سی مثال اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح واضح کردیتی ہے۔ مثال یہ ہے ''رج آؤن تے کد آؤن'' یعنی ایک عام دنیادار انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر اللہ اسے خوشحالی سے ہمکنار کرے تو وہ کسی کو بھی حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت حال سرداران قریش کی تھی جو دیہاتی قبائل عرب کی نسبت خوشحال تھے اور اسی خوشحالی نے ان کے دماغوں کو خراب کر رکھا تھا اور اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اگر اللہ سارے ہی لوگوں کو وافر رزق عطا کردے تو اس سے اس کے خزانوں میں تو کچھ کمی نہ آئے گی۔ لیکن لوگ دولت کی مستی میں ہر جگہ اودھم مچا دیں گے۔ اور ایک دوسرے کا جینا بھی حرام کردیں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اپنے اندازے اور اپنی حکمت کے مطابق رزق مہیا کرتا ہے۔ تاکہ لوگ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں اور دنیا کا نظام بھی ٹھیک طور پر چلتا رہے۔ امیر کام لینے کے لیے غریبوں کے محتاج رہیں اور غریب امیروں کے۔