سورة فصلت - آیت 42

لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس پر نہ باطل سامنے سے آسکتا ہے اور نہ آپ کے پیچھے سے یہ اللہ حکمت والے اور لائق تعریف کی طرف سے نازل کردہ ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٢] قرآن میں باطل کی عدم مداخلت کے مختلف پہلو :۔ یہ آیت کتاب اللہ کے زبردست ہونے کی وجہ یہ بتا رہی ہے کہ اس میں نہ آگے سے، نہ پیچھے سے، نہ اوپر سے، نہ نیچے سے غرض کسی طرف سے بھی باطل داخل نہیں ہوسکتا اور اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا کلام ہے جسے اللہ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا۔ جبرئیل فرشتہ ایسا ہے جو امین بھی ہے اور قوی بھی۔ یعنی نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں خود کوئی کمی بیشی کرتا ہے اور نہ کوئی جن یا شیطان یا کوئی دوسری طاقت اس سے کسی کلام کا کچھ حصہ چھین سکتی یا اس میں آمیزش کرسکتی ہے۔ پھر جب جبرئیل نے آپ کے دل پر اتار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و دیانت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی شاہد تھے اور آپ نے وہ کلام جوں کا توں امت تک پہنچا دیا تو اب بتاؤ کہ اس کلام میں باطل کی آمیزش کے لیے کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب سے قرآن نازل ہوا ہے۔ اسی وقت سے مسلمانوں کے سینوں کے اندر محفوظ ہو کر نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اور ہر زمانہ میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے حافظ موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور یہ شرف کسی دوسری کتاب کو حاصل نہیں۔ دوسری طرف اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی کتابت شروع ہوگئی تھی اس دور سے لے کر آج تک مسلسل اور متواتر اس کی اشاعت ہو رہی ہے اور کروڑوں اور اربوں تک اس کے نسخے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ شرف بھی اسی کتاب کو حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ کثیر الاشاعت کتاب ہے۔ اب ایک طرف یہ کتاب سامنے رکھئے دوسری طرف ایک چھوٹے سے حافظ بچے کو سنانے کے لیے کہہ دیجئے۔ آپ پر اس قرآن کا اعجاز ثابت ہوجائے گا۔ قرآن کے شائقین نے اس کی آیات، اس کے الفاظ، اس کے حروف، اس کے نقاط اور اس کے اعراب (زیر، زبر، پیش) غرضیکہ ایک ایک چیز کو گن کر ریکارڈ کر رکھا ہے۔ اب بتائیے کہ اس کتاب میں کسی ایک لفظ بلکہ حرف کی بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔؟ اور باطل اس میں کسی طرح راہ پاسکتا ہے؟ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے جو حقائق بیان کئے ہیں، کوئی علم ایسا وجود میں نہیں آسکتا جو فی الواقع علم ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ کوئی مشاہدہ ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ ثابت کرے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست کے باب میں انسان کی جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ باطل خواہ سامنے سے آکر حملہ آور ہو یا ادھر ادھر کے راستوں سے ہو کر چھاپے مارے وہ کسی طرح بھی اس حقیقت کو شکست نہیں دے سکتا جو قرآن نے پیش کی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق انسان کا علم خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے وہ محدود ہی ہوگا اور اس کے بعد بھی اس چیز کے متعلق مزید انکشافات ہوتے رہیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ہے۔ علاوہ ازیں وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق اپنی بنائی ہوئی چیز کے متعلق جتنی معلومات رکھتا ہے دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔