سورة غافر - آیت 64

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت ٹھہرایا، اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بڑی ہی اچھی بنائیں اسی نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، یہ ” اللہ“ ہی تمہارا رب ہے اور بے حساب برکتوں والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٣] زمین کے جائے قرار ہونے کے مختلف پہلو :۔ زمین کے جائے قرار ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے توازن و تناسب سے اس میں پہاڑ رکھ دیئے کہ وہ انسانوں اور تمام جانداروں کے لئے جائے قرار بن گئی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اسی زمین پر پیدا ہوتا ہے اسی پر زندگی گزارتا ہے اسی میں مرنے کے بعد دفن ہوتا ہے اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے کھانے، پینے، لباس اور دوسری تمام ضروریات اسی زمین سے وابستہ ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ زمین میں ایسی خصوصیات نہ رکھ دیتا تو نہ یہاں کوئی جاندار زندہ رہ سکتا اور نہ ہی زمین جائے قرار بن سکتی تھی۔ [٨٤] آسمان ایک محفوظ چھت کیسے؟ اس مقام پر آسمان کو چھت قرار دیا گیا ہے جبکہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٣٢ میں اسے ﴿سَقْفًا مَّحْفُوْظًا﴾یعنی محفوظ چھت قرار دیا گیا ہے۔ اور چھت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آفات سماوی سے محفوظ رکھتا ہے یہی فائدہ آسمان دنیا کا ہے۔ اس وسیع کائنات میں لاتعداد سیارے، دمدار ستارے اور ٹوٹنے والے ستارے انتہائی تیز رفتاری سے تیرتے پھرتے ہیں۔ یہ آپس میں بعض دفعہ ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اللہ نے ہمارے اوپر یہ محفوظ چھت بنا دی ہے۔ ورنہ عالم بالا کی آفات زمین پر بارش کی طرح برس کر زمین والوں کو تہس نہس کر دیتیں۔ اس آسمان سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔ حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اسی وجہ سے ہم اس زمین پر امن و چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ [٨٥] جسمانی اعتبار سے انسان دوسرے جانوروں سے کن باتوں میں ممتاز ہے ؟:۔ تمہاری شکل و صورت تمام جانداروں سے اعلیٰ قسم کی بنائی۔ دوسرے جانداروں سے انسان کی نمایاں جسمانی خصوصیات یہ ہیں کہ تمام جاندار اپنے منہ سے غذا کھاتے ہیں جبکہ انسان اپنے ہاتھ سے خوراک منہ تک لے جاتا ہے اکثر جاندار زمین پر ہی رینگتے یا چار پیروں پر چلتے ہیں۔ جبکہ انسان دو پاؤں پر چلتا ہے اور اپنا جسم سیدھا رکھ کر چلتا ہے۔ انسان کے ہاتھ اور پاؤں کثیرالمقاصد ہیں جتنا کام انسان اپنے ہاتھ پاؤں سے لے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی جاندار نہیں لے سکتا اس کے بے نظیر جسم اور جسمانی صلاحیتوں کے علاوہ جتنی ذہنی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہیں وہ کسی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئیں۔ اور یہ صلاحیتیں عطا کرنا محض اللہ کا فضل و کرم ہے جس میں کسی دیوتا، کسی نبی اور ولی اور بزرگ کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ [٨٦] زمین کی پیداوارکا بہترین حصہ انسان کے لئے ہے زمینی پیداوار سے انسان کا بیشمار اشیاء بناکر کا لطف اٹھانا :۔ جتنی بھی پیداوار زمین سے اگتی ہے اس کا بہترین حصہ انسان کی خوراک کے کام آتا ہے کسی جاندار کو اتنی عمدہ اور لذیذ چیزیں کھانے کو میسر نہیں آسکتیں۔ جتنی انسان کو یہ میسر آتی ہیں۔ یہ ٹھنڈا میٹھا اور نتھرا ہوا صاف شفاف پانی، یہ غلے، یہ پھل، یہ ترکاریاں، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے انسان کی صرف غذا کا ہی کام نہیں دیتے بلکہ انسان ان سے اور پھر ان سے دوسری بہت چیزیں تیار کرکے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ پھر انسان خوشبودار پھولوں اور ان سے عطریات تیار کرکے جو لطف اٹھاتا ہے وہ دوسرے کسی جاندار کے حصہ میں نہیں آتے۔ یہ سب چیزیں آخر کس نے اتنی فراوانی کے ساتھ زمین پر پیدا کی ہیں اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آتے ہیں اور ان میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہوتا اگر اللہ تعالیٰ تمہارے پاکیزہ رزق کا یہ انتظام نہ فرماتا تو تم خود سوچ لو کہ تمہاری زندگی کیسی بے کیف ہوتی۔ کیا یہ بات اس امرکا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق ہی نہیں بلکہ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔