سورة الزمر - آیت 23

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء آپس میں ایک دوسرے کے ترجمان ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں، اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے وجود اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے راہ راست پر لے آتا ہے اور جس کو اللہ ہدایت نہ دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٦] قرآن بہترین کلام کیسے ہے؟:۔ قرآن بہترین کلام اس لحاظ سے ہے کہ اس کی آیات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا انداز بیان دلنشین ہے۔ اس کے دلائل عام فہم ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی بھی ایسے ہی مستفید ہوسکتا ہے جیسے ایک جید عالم، اور اس کے احکام وفرامین دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ نیز اس کے احکام محض نظریاتی نہیں بلکہ سب قابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کیا جائے تو اخروی فلاح کے ضامن ہیں۔ اور یہ سب خوبیاں اللہ کے کلام کے علاوہ دوسرے کسی کے کلام میں نہیں ہوسکتیں۔ [٣٧] ملتی جلتی آیات سے مراد؟ یعنی قرآن میں ایک مضمون اگر بیس مقامات پر آیا ہے تو بھی اس میں اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ اندازِبیان اور اختلاف الفاظ کے باوجود ایک جگہ کا مضمون دوسری جگہ کے مضمون کی تائید و توثیق ہی کرتا ہے۔ جس سے بات پوری طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ ﴿إنَّ الْقُرْآنَ یُفَسِّرُ بَعَضَہ بَعْضًا﴾ یہ تو ممکن ہے کہ ایک جگہ اجمال ہو اور دوسری جگہ تفصیل۔ مگر اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن نے ایک حکم دیا ہے کہ کسی غیرمسلم کو اپنا دلی دوست اور راز دار نہ بناؤ، تو کسی جگہ آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ سیاست میں کوئی بات یا کوئی اصول حرف آخر نہیں ہوتا۔ [٣٨] مثانی سے مراد کیسی آیات ہیں :۔ مثانی سے مراد ایک تو ایسی آیات ہیں جو بار بار پڑھی اور دہرائی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے سورۃ فاتحہ کو سبع من المثانی کہا گیا ہے کہ یہ سورت کم از کم نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ پھر نماز کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ دوسری مراد وہ آیات ہیں جو قرآن میں بہ تکرار وارد ہیں۔ مثلاً ﴿وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ یا ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآن للذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ﴾ یا ﴿فَبِایِّ اٰلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ اور ایسی آیات جو دو دو یا تین بار وارد ہیں وہ بہت ہیں۔ تیسری مراد اقوام سابقہ کے انجام سے خبردار کرنے والی آیات یا انبیاء کے قصص ہیں جو قرآن میں بار بار مختلف پیرایوں میں مذکور ہوئے ہیں۔ ایسے ہی شرک کے ابطال اور توحید کے دلائل ہر سورۃ کی بے شمار آیات میں مذکور ہیں۔ جو سب ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور چوتھی مراد ایسی آیات ہیں جن میں نوعی تقابل پایا جاتا ہے۔ مثلاً جہاں اہل جنت کا ذکر ہے وہاں اہل دوزخ کا ذکر بھی آجاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ جہاں رات کا ذکر ہے وہاں دن کا بھی ذکر ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت قہار کا ذکر ہے تو اگلی آیت میں صفت غفار یا غفور کا بھی ذکر آگیا ہے۔ [٣٩] قرآن سننے پر حال پڑنا محض ریاکاری ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب قرآن پڑھا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا کیا حال ہوتا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ ’’ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ’’ہمارے زمانہ میں تو بعض لوگ ایسے ہیں کہ قرآن سننے سے ان کو غش آجاتا ہے‘‘ سیدہ اسماء نے کہا ’’اللہ کی پناہ شیطان مردود سے‘‘ اور جلدوں اور دلوں کے نرم پڑنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی خوش دلی اور رغبت کے ساتھ اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں۔ یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان لوگوں کی صفات ہیں جو فی الواقع قرآن کی تاثیر قبول کرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگوں نے تصنع سے ایسے طریقے ایجاد کر لئے کہ قرآن سننے سے غش آجائے اور وہ گر پڑیں جسے ہماری زبان میں حال پڑنا یا حال کھیلنا کہتے ہیں۔ ریا کار اور مصنوعی پیر قسم کے لوگ عام لوگوں پر اپنی بزرگی کی دھاک بٹھانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عراق کے ایک ایسے شخص پر سے گزرے جو مدہوش گرا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا : ’’اسے کیا ہوا ؟‘‘ لوگوں نے کہا :’’جب یہ قرآن سنتا ہے تو اس کا یہی حال ہوجاتا ہے‘‘ سیدنا عبداللہ کہنے لگے : ہم بھی اللہ سے ڈرتے ہیں مگر گرتے نہیں اور ایسے لوگوں کے پیٹ میں شیطان ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ طریقہ نہ تھا اور ابن سیرین سے کسی نے پوچھا : ’’کچھ لوگ قرآن سن کر گر جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا : ایسے لوگوں کو ایک چھت پر اس طرح بٹھاؤ کہ وہ نیچے کی طرف دیوار کے ساتھ پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں پھر انہیں قرآن سناؤ۔ اگر وہ نیچے گر پڑیں تب وہ سچے ہیں ورنہ وہ جھوٹے اور ریاکار ہیں۔