سورة العنكبوت - آیت 62

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٤] مال کی محبت انسان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مال و دولت ملے۔ لیکن اللہ اتنا ہی دیتا ہے جتنا وہ خود چاہتا ہے۔ کسی کو زیادہ، کسی کو کم۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو کچھ بھی نہ دے، دیتا ضرور ہے۔ اور اس میں بھی اس کی کئی حکمتیں اور بندوں کی مصلحتیں مضمر ہیں۔ [٩٥] کسی کو کم یازیادہ رزق دینے میں اللہ کی حکمتیں اور بندوں کےمصالح:۔ وہ یہ بات خوب جانتا ہے کہ فلاں بندے کو اگر رزق زیادہ دیا گیا تو وہ اس سے خیر اور بھلائی ہی کمائے گا اور فلاں کو زیادہ دیا گیا تو وہ میری یاد سے غافل اور سرکش اور متکبر بن جائے گا اور کہیں کسی کو مال کو زیادہ دے کر اسے ابتلاء میں ڈال دیتا ہے۔ غرض یہ کہ مال سے جتنی انسان کو محبت ہے اتنا ہی وہ مال اس کے حق میں فتنہ بھی بن سکتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک شخص جنگل میں کھڑا تھا۔اس نے بادل سے آوازسنی ۔(کسی نے آوازدی) کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ۔ چنانچہ بادل ایک طرف چلا۔ا ور اپنا پانی ایک سنگلاخ زمین پر انڈیل دیا۔ اچانک نالیوں میں سے ایک نالے نے سارا پانی جمع کرلیا۔ وہ آدمی پانی کے پیچھے چلا دیکھاکہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑا ہے۔اوراپنے بیلچے سے پانی ادھر ادھر کررہاہے ۔اس آدمی نےکہا:”اللہ کے بندے تمہارا نام کیاہے؟“ اس نے کہا فلاں ‘ وہی نام ہے جواس نے بادل سے سنا تھا۔پھراس نے دریافت کیاکہ اے اللہ کے بندے تو نام کیوں پوچھتاہے ؟ اس نے کہا ’’میں نے اس بادل سےجس کا یہ پانی ہے آوازسنی تھی کہ فلاں کے باغ کوپانی پلا اور تیرانام لیا‘‘پس تو اپنے باغ میں کیاکرتاہے؟ اس نے کہا جب تونے پوچھا ہے تو میں بتادیتاہوں کہ جو کچھ میرے باغ میں پیدا ہوتاہے ۔اس کا تہائی حصہ صدقہ کردیتاہوں اورا یک تہائی میں اور میرا عیال کھاتاہے ۔اور ایک تہائی اس باغ میں لگادیتاہوں ۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الزھد ۔ باب فضل انفاق علی المساکین وابن السبیل ) ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے۔ آپ نے سب کو نہیں دیا، کسی کو دیا اور کسی کو چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے اس تقسیم کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا میں اس شخص کو مال دیتا ہوں جس کے دل میں بے چینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں۔ حالانکہ جن لوگوں کو نہیں دیتا وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں جنہیں میں یہ مال دیتا ہوں اور جن محبوب لوگوں کو نہیں دیتا تو اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں سیرچشمی اور بھلائی رکھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! کہ جو خوشی مجھے آپ کی اس بات سے ہوئی اگر مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعه۔ باب من قال فی الخطبة بعد الثناء اما بعد) ان واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی کو کم یا زیادہ دینے میں اللہ کی کیا کچھ حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔