سورة القصص - آیت 56

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی آپ جیسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔“ (٥٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٦]ہدایت کےدومختلف مفہوم اورابوطالب کی وفات کا قصہ:۔ ہدایت کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی کافر کے قلب و دماغ میں ایسی تبدیلی آجائے کہ وہ ہدایت یا اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے یہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔ سعید بن مسیب کے والد مسیب بن حزن کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ پہلے ہی وہاں بیٹھے ہیں۔ آپ نے ابو طالب سے فرمایا: ’’چچا جان! اگر آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں دلیل پیش کرسکوں گا‘‘ اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : ابو طالب! کیا تم عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے؟ آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہ وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں اور لا الٰہ الا اللہ کہنا قبول نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک تمہارے لئے دعا کرتا رہوں گا جب تک اس سے منع نہ کیا جاؤں‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ ﴾اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت ﴿إنَّکَ لاَ تَھْدِیْ۔۔ ﴾(بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ ترمذی کی روایت کے مطابق ابو طالب نے آپ کو یہ جواب دیا اگر قریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے یہ کلمہ کہلوا دیا ہے تو بھتیجے! میں یہ کلمہ کہہ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اب رہا ابو طالب کا اخروی انجام، جس نے مکی دور میں اپنے آخری دم تک آپ کی حمایت اور سرپرستی کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا، تو اس کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ابو طالب کو کچھ فائدہ پہنچے گا۔ وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کی خاطر سب کی ناراضگی مول لے لی تھی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب شفاعۃ النبی لابی طالب) ٢۔ ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن شاید ان کو میری سفارش سے فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو اور ان کا بھیجا پکتا رہے‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٣۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم کو جہنم کا سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہوگا وہ (آگ کی) دو جوتیاں پہنے ہوں گے جس سے ان کا بھیجا کھول رہا ہوگا۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) اور ہدایت کا دوسرا معنی یا دوسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کی منزل مقصود تک رہنمائی کی جائے۔ ان معنوں میں آپ اور دیگر انبیاء بلکہ علمائے کرام بھی ہدایت کی راہ نہ بتلا سکتے ہیں اور پیغمبروں کی تو ذمہ داری ہی یہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَاِنَّکَ لَـــتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾(۵۲:۴۲) یعنی آپ یقینا لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ [٧٧] یعنی اللہ صرف ان لوگوں کو ایمان لانے کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کے طلبگار ہوں۔ ایسے لوگوں کو وہ خوب جانتا ہے اور ان کی ہدایت کے اسباب بھی انھیں مہیا فرما دیتا ہے۔