سورة الفرقان - آیت 4

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کافرکہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص نے اپنی طرف سے بنا لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ بڑاظلم اور کھلا جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اترآئے ہیں۔ (٤)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨]مستشرقین کا یہ الزام ہے کہ آپ نےعلماء یہود ونصاریٰ سے کسب فیض کیاتھا اور ا س کے جوابات:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر قرآن کو تصنیف کرنے کا الزام اس دور کے مشرکین مکہ کو ہی نہ تھا، آج کے مستشرقین بھی اپنی تحقیق و تنقید کی آڑ میں کچھ ایسا ہی الزام لگا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کے ان محققین کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت سے پیشتر کئی تجارتی سفر کئے یہود و نصاریٰ کے کئی علماء سے آپ کی ملاقات ہوئیں اور اس سلسلسہ میں بالخصوص بحیرا راہب کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ تو انھیں ملاقاتوں کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علماء سے کسب فیض کیا۔ پھر اسے اپنے انداز میں اور اپنی زبان میں عربوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہی وہ انبیاء یا سابقہ اقوام کی تاریخ تھی جسے آپ نے نبوت کے نام سے پیش کیا۔ مستشرقین کے اس اعتراض کے باطل ہونے کی بے شمار وجوہ ہیں جو درج ذیل ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی تجارتی سفر کیا تو اکیلے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی قوم کے لوگوں کے ہمراہ کیا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ ملاقاتیں کی تھیں یا ان سے کسب علم کیا تھا تو اس بات کا سب سے زیادہ علم آپ کے ہمراہیوں کو ہونا چاہئے تھا۔ حالانکہ نبوت سے پیشتر ان لوگوں نے آپ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا تھا۔ پھر جس بات کا علم آپ کے ہمراہیوں کو نہ ہوسکا تھا ان لوگوں کو کیسے ہوگیا ؟ ٢۔ نبوت سے پہلے اگر آپ نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ کسب علم کیا تھا تو ضروری تھا کہ اس کا اظہار دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر نبوت سے پہلے بھی ہوجاتا۔ خواہ آپ اسے چھپانے کی کتنی ہی کوشش کرتے۔ نبوت سے پیشتر کوئی ایسی بات آپ کی زبان سے نہ نکلنا ہی اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ اعتراض سراسر باطل اور لغو ہے۔ ٣۔ قرآن میں کئی ایسی پیشین گوئیاں مذکور ہیں جو آپ کی زندگی میں حرف بحرف پوری ہوگئیں اور ان کا علمائے یہود و نصاریٰ کو کسی طرح بھی علم نہ ہوسکتا تھا۔ جیسے روم کا شکست کھانے کے بعد ایران پر دوبارہ غلبہ یا کافروں کی مخالفانہ بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام کا غلبہ اور کفار و مشرکین کی ذلت امیز شکست وغیرہ وغیرہ۔ ٤۔ قرآن میں بے شمار ایسی آیات نازل ہوئیں جن کا ان کے پس منظر سے گہرا تعلق ہے۔ مثلاً جنگ بدر کے بعد اموال غنیمت میں تنازعہ کے موقع پر سورۃ انفال کا نزول ، لعان اور ظہار کے احکام کا نزول، واقعہ افک کے بعد قذف اور زنا کی حدود کے احکام کا نزول۔ ایسی آیات کا بھلا علمائے یہود و نصاریٰ کا پہلے سے کیونکر علم ہوسکتا تھا اور وہ ایسے حکیمانہ احکام کیسے بتا سکتے تھے۔ ٥۔ قرآن میں بے شمار مقامات پر یہود و نصاریٰ کے عقائد اور ان کے اخلاق و کردار پر تنقید کی گئی ہے کیا یہ باتیں بھی علمائے یہود ونصاریٰ آپ کو بتا سکتے تھے؟ غرضیکہ اس اعتراض پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کو باطل قرار دینے کی اور بھی کئی وجوہ سامنے آتی جائیں گی۔ مشرکین کا یہ الزام کہ آپ کوکوئی سکھاجاتاہے کے جوابات:۔ اور مشرکین مکہ کا آپ پر جو اعتراض تھا وہ نبوت کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ چند یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان ہوگئے تھے۔ مشرکوں کو اعتراض یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان سے سیکھی ہیں۔ ابتداًء صرف دو نمازیں فرض تھیں ایک صبح کی اور ایک شام کی۔ ان نمازوں کے اوقات میں مسلمان دار ارقم میں اکٹھے ہوتے۔ تو اگر کچھ وحی اس دوران نازل ہوتی تو آپ نماز کے لئے آنے والے مسلمانوں کو سنا دیتے۔ اس بات سے بتنگڑ یہ بنایا گیا کہ صبح و شام جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں تو یہی یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان اقوام سابقہ اور انبیائے سابقہ کے حالات بیان کرتے ہیں جو ساتھ ساتھ لکھ بھی لئے جاتے ہیں اور پڑھے اور سنے سنائے بھی جاتے ہیں۔ پھر انہی باتوں کو اللہ کی طرف سے منسوب کرکے قرآن کے نام سے دوسروں کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ یہ اعتراض درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے : ١۔ اگر یہ یہودی غلام جو مسلمان ہوگئے تھے آپ کے استاد یا معلوم ہوتے تو وہ آپ کے فرمانبردار بن کر نہیں رہ سکتے تھے۔ پھر فرمانبرداری بھی ایسی جو جانثاری کی حد تک پہنچ چکی ہو۔ ٢۔ اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ دنیوی مفادات کی خاطر ایسا سمجھوتہ کرلیا گیا تھا تو آپ کے نزدیک آپ کے مقرب وہ یہودی غلام ہونے چاہئیں تھے نہ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و غیرہم ٣۔ علاوہ ازیں ان پر بھی وہ سب اعتراض وارد ہوتے ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ مثلاً قرآن کی پیشین گوئیاں، موقع اور ضرورت کے مطابق احکام الہٰی کا نزول اور یہود کے اخلاق و عقائد پر کڑی تنقید وغیرہ۔ لہٰذا یہ اعتراض قرآن کریم کی داخلی، خارجی شہادت اور عقلی دلائل کے لحاظ سے محض ایک افتراء اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔