سورة المؤمنون - آیت 91

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا الٰہ اس کے ساتھ نہیں ہے اگر اور ہوتے تو ہر الٰہ اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہوجاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ (٩١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٨] جبکہ مشرکین اپنی دیویوں لات، منات اور عزیٰ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور باقی ممالک کے مشرکین نے تو ایسی دیو مالا تیار کی کہ اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو۔ اب ظاہر ہے کہ بیٹا مملوک نہیں ہوتا بلکہ شریک ہوتا ہے۔ اب ایک طرف تو مشرکین مکہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے۔ لہٰذا اگر ہر چیز کو مملوک مان لیا جائے تو کوئی بھی چیز اس کی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یا پھر اس کلیہ سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ [٨٩] اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو الٰہ ماننے سے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ الٰہ صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہوں۔ اس طرح اللہ کے علاوہ بہت سے اصحاب اختیار و اقتدار سامنے آجاتے ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ دوسرے کو بات کرکے خود غالب آجائے پھر جس مخلوق پر کسی الٰہ کا اختیار چلتا ہوگا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ اور اقتدار کی اس جنگ میں لامحالہ کائنات کا نظام بھی تباہ ہوکے رہے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کے نظام میں ہم آہنگی اور استقلال پایا جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ دوسرے معبودوں اور ان کے اختیارات کا عقیدہ باطل اور لغو ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان بے ہودگیوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔