سورة المؤمنون - آیت 73

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آپ ان کو سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں۔ (٧٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٥] سیدھی راہ سے مراد:۔یعنی وہ ایسی موٹی موٹی باتیں ہیں جو ہر پیغمبر پر وحی کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔ کوئی پیچیدگی اور ابہام نہیں۔ ان کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ جو ایک دیہاتی اور بدو کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ ان کے سمجھنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تعلیم کی بھی ضرورت نہیں۔ مثلاً ایک بدو سے کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے؟ کہنے لگا’’ ہاں ہے!‘‘ پوچھنے والے نے دوبارہ وال کیا :’’بھلا کیسے؟‘‘ بدو کہنے لگا : ’’اگر ہم راہ میں کوئی اونٹ کی مینگنی پڑی دیکھیں تو ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں سے یقیناً کوئی اونٹ گزرا ہے۔ اسی طرح جب ہم یہ کائنات کا اتنا وسیع کارخانہ دیکھتے ہیں لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا کوئی بنانے والا ضرور ہونا چاہئے‘‘ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں دو حاکم ہوں تو اس کا نظام کبھی درست نہیں رہتا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کچھ اور بھی مالک و مختار ہوں؟ اگر ایسی صورت ہو تو کائنات کا نظام تو ایک دن بھی نہ چل سکے۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر زمانہ میں مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ انسان جو غذائیں کھاتا ہے سب بے جان ہیں۔ کئی مراحل کے بعد انھیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے۔ پھر اسی نطفہ سے ایک جیتا جاگتا انسان پیدا ہوجاتا ہے۔ جس میں اس کے ماں باپ کے خصائل و عادات اور نقش وغیرہ تک کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ اسی سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو کام اس دنیا میں ہر آن ہمارے سامنے ہو رہے ہیں وہ آخر انسان کی موت کے بعد کیوں ناممکن ہیں۔ غرض دین کی اصولی تعلیمات پر غور فرمائیے تو سب باتیں سیدھی، سادہ اور عام فہم نظر آئیں گی اور یہی اصولی باتیں ہی اللہ کی سیدھی راہ ہے۔